اسلام میں سیاست کا مقام و حیثیت

مولاناعبدالسلام

سیاست عربی زبان کالفظ ہے ۔اس کامعنی ومفہوم لغت کی کتابوںسے یوںمعلوم ہوتاہے:
”پاس داشتن ملک وحکم راندن بررعیت۔”(شمس اللغات ص ٣٦٦)یعنی ملک کی حفاظت کرنااورعوام پرحکمرانی کرنا۔
السیاسةالقیام علی الشیء بمایصلحہ والسیاسةفعل السائس یقال ھویسوس الدواب اذاقام علیہاوراضہاوالوالی یسوس رعیتہ(لسان العرب ج ٦ص ٤٢٩،٤٣٠)”یعنی کسی شیء کی ایسے طریقے پرنگہداشت اوردیکھ بھال کرناجواس کے مناسب ہو۔جانورسدھانے کاعمل سیاست ہے چنانچہ ہویسوس الدواب اس وقت کہاجاتاہے جب آدمی جانوروںکوسدھاکران کی دیکھ بھال کرے۔اسی طرح حکمران بھی اپنے عوام کی نگہداشت اوردیکھ بھال کرتا ہے۔”
مذکورہ تعریفات سے اندازہ ہوتاہے کہ سیاست ایک ایسافن ہے جس کے ذریعے ملک اورقوم کی بہتری کے بارے میںسوچاجاتاہے۔
سیاست کی اصطلاحی تعریف یہ ہے۔استصلاح الخلق بارشادھم الی الطریق المنجی فی الدنیاوالآخرة ”یعنی مخلوق کی خیرخواہی کرتے ہوئے انہیںایسے راستے پرچلاناجودنیاوآخرت میںنجات دلانے والاہو۔”مطلب یہ ہے کہ ”سیاست”خیرخواہی کے جذبے سے سرشارہوکرعوام کی دنیاوآخرت کی کامیابی کے لیے تدابیراختیارکرنے کانام ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ یہ تعریف کون سے سیاسی نظام پرصادق آتی ہے ۔اگرانصاف کی نظرسے دیکھاجائے تویہ تعریف صرف اسلام کے سیاسی نظام پرصادق آتی ہے کیونکہ دنیامیںجتنے بھی سیاسی نظام ہیں ان میںسے صرف اسلام کاسیاسی نظام ہی ایسانظام ہے جو انسان کی دنیاوی بہتری کے علاوہ آخرت کی بھلائی کابھی انتظام کرتاہے جیساکہ اسلام کے سیاسی نظام کی درج ذیل تعریف سے واضح ہوتاہے ۔
اسلام کے سیاسی نظام کی تعریف
اسلام کے سیاسی نظام کو امامت وخلافت کے الفاظ سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔علامہ تفتازانی اسلام کے سیاسی نظام کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
وہی ریاسة عامة فی امر الدین والدنیا خلافة عن النب صلی اﷲ علیہ وسلم واحکامہ فی الفروع .”یعنی امامت دینی و دنیاوی معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور فروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی جانشینی اختیار کرتے ہوئے عمومی اختیار و اقتدار ہے۔”
علامہ نسفی اسلام کے سیاسی نظام کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
” نیا بة عن الرسول علیہ السلام فی اقامة الدین بحیث یجب علی کافةالامم الاتباع . ”” دین کے قائم کرنے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی ہے اس طرح کہ تمام اقوام پر (خلیفہ کی)اتباع فرض ہے۔ ”
امام الماوردی لکھتے ہیں :
” الامامة موضوعة لخلافة النبوة فی حراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ. ”” امامت دین کی حفاظت کرنے اور اس کے ذریعے دنیاوی امور کی تدبیر اور نظم و نسق کرنے میں نبوت کی نیابت ہے۔”
امام الحرمین کے نزدیک خلافت کی تعریف درجِ ذیل ہے:
الامامة ریاسة تامة وزعامة عامة تتعلق بالخاصة والعامة فی مھمات الدین والدنیا .
” امامت مکمل ریاست اور عمومی قیادت ہے جس کا اہم دینی اور دنیاوی امور میں خواص و عوام سے تعلق ہے۔”
علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :
فھی فی الحقیقة خلافة عن صاحب الشرع فی حراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ .
” در حقیقت خلافت دین کی حفاظت کرنے اور اس کے ذریعے دنیوی امور کی تدبیر اور نظم و نسق کرنے میں صاحب ِ شریعت ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نیابت اور جانشینی کا نام ہے۔”
حضرت شاہ اسماعیل شہید فرماتے ہیں:”باید دانست کہ ریاست دریں مقام عبارت است از تربیت بندگانِ الہی بر قانون ِ معاش ومعاد بطریقِ امامت وحکومت” ”یعنی سیاست سے مراد بندگان الہی کی اصلاحِ معاش ومعادکے قوانین پر امامت وحکو مت کے طریق سے تربیت کرنا ہے۔”
سب سے جامع ومانع تعریف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کی ہے، فرماتے ہیں:
الخلافة ھی الریاسة العامة فی التصدی لاقامة الدین باحیاء العلوم الدینیة واقامة ارکان الاسلام والقیام بالجہاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة واعطاء ھم من الفیٔ والقیام بالقضائِ واقامة الحدود ورفع المظالم والامر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابةَََ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ۔
” خلافت عامہ وہ ریاست عامہ ہے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے عملاً اقامت دین کے لئے حاصل ہوئی ہو یعنی علوم دینیہ کا احیائ، ارکانِ اسلام کی اقامت، جہاد او رمتعلقات ِجہاد کا قیام جیسے افواج کی ترتیب، مجاہدین کو وظائف دینا، مالِ غنیمت کی تقسیم، نظامِ قضاء کا قیام، حدود کا اجراء ، مظالم کو دور کرنا اور الامر بالمعروف والنھی عن المنکر .”

موجودہ دور میں دین و سیاست میں تفریق کا باطل نظریہ اُمتِ مسلمہ کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور اہلِ یورپ کی دیکھا دیکھی مغرب زدہ مسلمانوں کی زبان پر بھی یہ نعرہ عام ہو گیا ہے”دین وسیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں”سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین میں سیاست سے متعلق کوئی تعلیمات نہیں ہیں اس لیے دین کوسیاست میں کسی قسم کی دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے حالانکہ دین میں سیاست موجود ہے یہاں تک کہ اس کی تعلیمات کے علاوہ ایک حدیث مبارکہ میں سیاست کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔چنانچہ خاتمُ الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے۔
کَانَتْ بَنُوْاِسْرَائیِلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلُّمَا ھَلَکَ نَبِیُّ خَلَفَہُ نَبِیُّ وَاِنَّہُ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْا فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ فُوبَیْعَتَ اَلاَوَّلَ فَاْلاَ وّل اَعْطُوْھُم حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللٰہَ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَا ھُمْ۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر ٣٤٥٥)
ترجمہ: بنی اسرائیل کی سیاست (امورِدین ودنیا کا نظم ونسق)انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو اس جانشین کوئی دوسری نبی ہو جاتا(اس طرح یکے بعد دیگرے انبیاء اپنی قوم کی سیاست کیا کرتے تھے) لیکن میرے بعد کوئی نبی آنے والانہیں ہے البتہ میرے بعد امراء وخلفاء ہونگے اور بہت ہونگے(جن کے ذمّے اُمّت کی رہنمائی ونگہبانی ہو گی)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ (جب بیک وقت متعدد امراء ملک وامت کی قیادت کے دعویدار ہونگے اور آپس میں ایک دوسرے کے مخالفت کریں گے تو)اس وقت کیلئے آپ آپ ہمیں کیا ہدایت فرماتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے امیر کی بیعت پوری کرو(پھر دوسرے زمانے میں)پہلے امیر کی(یعنی جب بھی بیک وقت مثلاََ دو امیر اپنی سیاست وسرداری کا دعویٰ کریں تو اس کے امیر کی بیعت واطاعت کرو جو پہلے مقرر ہوا ہواور دوسرے کی مطلق پیروی نہ کرو )اور انکے حقوق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ نے انکو اپنی مخلوق کی نگہداشت وحکومت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کے بارے میں وہ خود ان سے پوچھے گا۔
اس حدیث مبارکہ سے ایک یہ بات معلوم ہوئی کہ سیاست دین میں داخل ہے دوسری یہ کہ یہ انبیاء کا سلسہ ختم ہونے کے بعد یہ ذمہ داری خصوصاََ ان کے ورثاء علماء کرام پر اور عموماََپوری دنیا پر عائد ہوتی ہے بنی اسرائیل کے انبیاء کیطرح آپ علیہ الصلوٰتہ والسلام نے بھی امت کی سربراہی کے فرائض سر انجام دیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ طیّبہ نے اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کی اور اس میں اسلامی نظام کااجراء کیا گیا۔
کچھ دلائل:سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین میں سیاست کا مقام کیا ہے؟اور دین میں ایک صحیح سیاسی نظام کے قیام کی اہمیت کس درجے میں ہے؟عیسائیت کا یہ باطل نطریہ بہت مشہور ہے کہ ”قیصر کا حق قیصر کودو”اور ”کلیسا کا حق کلیسا کو دو”جسکا حاصل یہ ہے کہ مذہب کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔اور مذہب وسیاست کا دائرئہ عمل مختلف ہے دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں ایک دوسرے کی مداخلت کے بغیر کام کرنا چاہئیے۔
دین وسیاست کا یہی نظریہ عہدِحاضر میں ترقی کر کے”سیکولرزم”کی شکل اختیارکر گیا جو آج کی نظام ہائے سیاست میں مقبو ل ترین نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ اسلام میں اس نظریہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اسلام کی تعلیمات چونکہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں جن میں سیاست بھی داخل ہے، ا س لیے اسلام میںسیاست کو دین ومذہب سے بے تعلق رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔چنانچہ عہدِ حاضر میں بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت اور سیکولرزم کے اس باطل نظریے کی پرزور تردید کی اور یہ ثابت کیاکہ سیاست کودین سے
ا لگ نہیں کیا جا سکتا۔ بقول اقبال مرحوم۔۔
جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (اسلام اور سیاست ٢٤،٢٥)
سیاست دین میں داخل ہے یا اس سے الگ نئی چیز ؟آج کل یہ نعرہ عام ہے کہ سیاست وحکومت کا دین سے کوئی تعلق نہیں،شریعت کی روشنی میں مسئلہ کا حل ارشاد فرمائیں؟ بینوا توجرو
الجواب باسم ملھم الصواب
سیاست کے لغوی معنی تدبیر واصلاح کے ہیں شرعاََاور عقلاََ اس کے تین شعبے ہیں۔
١) اپنی ذات سے تدبیر۔
٢) بیوی اولاد اوراقارب و متعلقین سے متعلق تدبیر۔
٣) پورے علاقہ یا ملک کی اصلاح وفلاح کی تدبیر۔
پھر اس اصلاح تدبیر کے مختلف مدارج اور مختلف صورتیں ہوتی ہیں مگر ایک مسلمان کیلئے صرف وہی تدبیر مفید کار آمد جو اس کی آخرت کیلئے نافع ہو کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے ا لہٰذا اپنی ذات ،اپنے اہلِ خانہ یا اپنے ملک کے حق میں ایسی سیاست اختیار کرنا جو کسی حکمِ شریعت سے متصادم ہو، نا جائز اور حرام ہے ہاں ! اگرشریعت کے دائرہ میں رہ کر سیاست وتدبیر کی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی اور ہر شخص پر حسبِ استطاعت فرض ہے ایسی ہی سیاست میں اپنی ذات اور عوام کی اصلاح وفلاح اور ہمدردی مضمر ہے۔
مروجّہ سیاست اور اس کے تمام تر طور طریقے چونکہ یورپ سے درآمد ہوئے ہیں لہٰذامغرب گزیدہ لوگوںنے یہ سوچ کرکہ ایسی سیاست کا دین اسلام سے کوئی جوڑ نہیں بیٹھتا،اور دونوں ایک قدم بھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے،یہ نعرہ لگایا:”دین وسیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں” جسکا مقصد ظاہر ہے کہ میدان ِ سیاست میں کھلی چھوٹ ہے اس میں جتنا جھوٹ بولو،فریب دو،دغا کرو،سیاست میں سب روا ہے،اس کی بجائے اگر یہ لوگ صاف صاف یہ نعرہ لگا دیتے۔”سیاست دان اور دیندار مسلمان دوالگ الگ مخلوق ہیں انکا ایک دوسرے سے کوئی جوڑ نہیں ”تو بہتر ہوتا یورپ والوں کو یہ نعرہ زیب دیتا ہے کہ انکے دین میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔حکومت وسلطنت کیلئے کوئی ہدایات نہیں،مگر ایک مسلمان کی طرف سے اس قسم کا نعرہ در حقیقت اس الحادوبے دینی کا اظہار ہے کہ ہمارے دین میں بھی سیاست وحکومت کیلئے کوئی رہنما اصول نہیں۔حضورۖ کی حیاتِ طیّبہ میں اس پہلو پر کوئی روشنی نہیں پائی جاتی، اس لیے ہم سیاست کو دین سے الگ رکھنے پر مجبور ہیں۔اس کا کفر والحاد ہونا محتاج دلیل نہیں۔ خلاصہ یہ کہ سیاست دین سے جدا نہیں بلکہ دین ہی کا ایک اہم شعبہ ہے۔مروجہ نعرہ مغرب پرست،آخرت بیزار قسم کے لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے۔
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
واللہ تعالیٰ اعلم۔
٢٠رجب ١٣٩٣ہجری
(احسن الفتاویٰ جلد ٦ ، ٢٢ ،٢٣)

Related posts