جان بیٹا خلافت پہ دے دو

 

کتاب کا نام: ہفت روزہ ضرب مؤمن 20 تا 26 جون 2014

صفحہ نمبر: 6

عبارت:

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

سلطان عبدالحمید دوم کے بعد ترکی کے تخت پر تین اور سلطان بیٹھے: محمد پنجم، محمد وحیدالدین ششم اور عبدالمجید دوم، لیکن ان میں سے کوئی بھی نہ خالص عثمانی خون اور عثمانی مزاج پر تھا نہ وہ حقیقی طور پر صاحبِ اختیار تھا۔ ’’نقشِ دل‘‘ کا جادو ئی نقش چل چکا تھا۔ وہ غیرتمند عثمانی خون میں دوغلے خون کی آمیزش کر کے 29 سال کے عرصے میں اپنا کام کرچکی تھی۔ آخری 2 میں پہلے سے تو محض سلطنت عثمانیہ کے سقوط اور دوسرے سے خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا کام لیا گیا۔ تمام نیک دل مسلمان حسرت سے عثمانی سلطنت کی ڈوبتی ہوئی نبضیں دیکھ رہے تھے۔ سرکاری طور پر تمام اقتدار GNA (گرینڈ نیشنل اسمبلی) کے پاس تھا اور اس کے ذریعے فری میسنز کے پاس۔ اخیر الذکر دونوں حکمرانوں میں سے پہلے یعنی سلطان محمد وحید الدین ششم کو سلطنت سے معزول کیا گیا۔ دوسرے کو خلافت سے بھی معزول کردیا گیا، لیکن وہ مرغِ بسمل کی طرح تڑپ بھی نہ سکے۔ کھیل کے آخری لمحات کی داستان انتہائی المناک اور دل کا خون کرنے والی ہے۔ آئیے! اس دلخراش داستان سے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ شاید یہ حسرت وندامت ہمیں مستقبل میں دشمن کے بدلتے پینتروں کو سمجھنے اور اس کے وار سے بچنے میں مدد دے سکے۔

سلطنت عثمانیہ جس کے آخری 2 حکمرانوں کی رگوں میں اگرچہ عظیم سلاطین آل عثمان کا خون تھا، لیکن اس میں یہودی

 

و عیسائی حسیناؤں کے خون کی آمیزش ہوچکی تھی۔ 36 ویں سلطان (یعنی آخری سے پہلا حکمران جس کا پورا نام سلطان وحید الدین محمد سادس (Muhammad VI) تھا) محلاتی سازشوں کی یلغار میں وہ جیسے تیسے زندگی کے دن پورے کررہا تھا۔ اصل اقتدار جمہوری تماشے کے ذریعے ترکی کی گرینڈ اسمبلی کے ہاتھ میں منتقل ہوچکا تھا۔ جس نے یکم نومبر 1922ء کو اجلاس بلا کر سلطنت عثمانیہ ختم کرنے کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی بغیر کوئی جرم بتائے سلطان کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ انگلینڈ، اسپین، تھائی لینڈحتیٰ کہ نیپال جیسے ملکوں میںجمہوری تماشے کے ساتھ بادشاہت پائی جاتی ہے، لیکن واحد ملک جس میں فرضی بادشاہ کے وجود کو بھی برداشت نہیں کیا گیا، ترکی تھا۔ جمہوریت دراصل وجود میں اس لیے لائی گئی ہے کہ امارت یا خلافت کا شرعی نظام باقی نہ رہے جواسلام کی نظر میں حکمرانی کا واحد مثالی نظام ہے۔

 

 

٭ محل کے باہر پُراسرار خاموشی طاری تھی۔ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ ایسی خاموشی جس کے پیچھے طوفان چھپا ہوتا ہے۔ ٭

معزول عثمانی خلیفہ، اس کی اہلیہ، بیٹی اس حال میں محل سے نکلے کے ان کے پاس چند جوڑے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ٭

 

سلطان محمد سادس نے کوئی چارہ کار نہ دیکھتے ہوئے جلاوطنی کے احکامات، فرد جرم سنے بغیر بلا چوں وچرا قبول کرلیے۔ ان کو ملک سے لے جانے کے لیے فوری طور پر جو بحری جہاز منگوایا گیا، وہ برطانیہ کی ملکیت تھا۔ جی ہاں! وہی برطانیہ جو اپنے ہاں بادشاہت کو آج تک یادگار کے طور پر باقی رکھے ہوئے ہے۔ اسے مسلمانوں کا بادشاہی نظام ختم کرنے میں اتنی جلدی تھی کہ تاریخ کے تاریخ کے طلبہ کے ہاتھوں لعن طعن سے نہ گھبرایا اور ملایا نامی جہاز قسطنطنیہ کی بندر گاہ بھیج دیا۔ یہ جہاز 1913ء میں بنایا گیا تھا۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد 1948ء میں اسے توڑ دیا گیا۔ سلطان اپنے چند رفقاء جن میں شیخ الاسلام نوری آفندی اور وزیر اعظم احمد توفیق پاشا کے ہمراہ اس بحری جہاز میں سوار ہوکر اپنے گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہوگئے۔ جہاز انہیں لے کر ’’برادری‘‘ کی طرف سے طے شدہ منزل یعنی پہلے مالٹا کی بندر گاہ اور پھر اٹلی کی ساحلی پٹی (Riviera) پہنچا۔ جی ہاں! وہی مالٹا جہاں حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے رفقاء نے خلافت کی حفاظت کی پاداش میں قید کی صعوبتیں اٹھائیں۔ اسی مالٹا سے ہوکر آخر سلطان اٹلی لے جائے گئے، جہاں انہیں اپنی زندگی کے بقیہ دن گزارنے تھے۔ وہاں وہ 4 سال تک زندہ رہے۔ پھر 16 مئی 1926ء کو آپ کی وفات سان ریمو (San Remo) نامی شہر میں ہوئی۔

سلطنتِ مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی طرح سلطنتِ عثمانیہ کے آخری تاجدار سلطان وحید الدین ششم کو بھی دفن کے واسطے کوئے یار میں دو گز زمین نہ ملی۔ بات وہی ہے اسلام کی ہر چیز کی طرح، بلکہ ہر چیز سے زیادہ ’’برادری‘‘ کو یا اس کے مرغِ دست آموز مغرب کو مسلمانوں کے نظام حکومت ’’سلطنت‘‘ یا اسلام کے نظام ریاست ’’خلافت‘‘ سے نہایت چڑ ہے۔ انہیں بس جمہوریت کا نظام دنیا بھر میں رائج کرنا ہے جو خالصتاً فری میسن ایجاد ہے۔ یہ وہی نظام ہے جس کے تحت ہمارے ہاں جمہوریت کی تلاش میں ہونے والے 19 انتخابات کے ذریعے 5 جمہوری جماعتیں مکمل شخصی وراثت بن گئی ہیں۔ سلطان کے جسد خاکی کو ترکی منتقل کرنے کی اجازت بھی نہ ملی۔ آخر کار انہیں شام کے دارالحکومت دمشق منتقل کیا گیا جہاں کی مشہور عثمانی مسجد ’’تکیہ‘‘ (Tekkiya) سے ملحقہ تاریخی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔ یہ وہی مسجد تھی جسے ان کے جدِّ امجد 10 ویں عثمانی، عظیم الشان سلطان سلیم قانونی نے عالم اسلام کے مشہور، ماہرتعمیرات سنان نامی معمار سے بنوایا تھا۔

سلطان وحید الدین سادس کی جلاوطنی کے ساتھ ہی، بلکہ اس سے پہلے عثمانی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ ان کی جلاوطنی (17 نومبر 1922ئ) کے 2 دن بعد یعنی 19 نومبر 1922ء کو سلطان عبدالمجید آفندی کو ’’خلیفہ‘‘ بنایا گیا۔ ’’سلطنتِ عثمانیہ‘‘ کے خاتمے کے بعد اب خلافتِ عثمانیہ کا منصب رہ گیا تھا، جسے پورا عالم مغرب اور ’’برادری‘‘ کے شیطان چیلے ختم کرنے کے درپے تھے۔ وہ دونوں دینی و روحانی مناصب کو بیک وقت ختم کرکے کوئی مصیبت مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ شیطان کا کام جلدی کا ہے، لیکن وہ اس شیطانی منصوبے کو دھیرے دھیرے پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتے تھے۔ عثمانی سلطنت آخری عثمانی سلطان کے ساتھ ختم ہوگئی تھی۔ اب عثمانی خلافت رہ گئی تھی، جسے بچانے کے لیے پوری دنیا کے مسلمان خصوصاً ہندوستان کے علمائے دیوبند ’’تحریکِ خلافت‘‘ 1918ء تا 1924ء جیسی مہموں کے ذریعے پورا زور لگارہے تھے۔ یہ چیز آج تک ترکوں کو یاد ہے، لہٰذا وہ پاکستانی مسلمانوں کے لیے بے لوث محبت اور شکر گزاری کا جذبہ رکھتے ہیں۔ تحریک خلافت کا نقطۂ عروج کراچی کے خالق دینا ہال میں علی برادران پہ غداری کا مقدمہ تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی والدہ بی اماں جن کا اصل نام ’’آبادی بانو بیگم‘‘ تھا اور بے شمار خواتین میدان میں آگئیں۔ اس دوران نظم:

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

کو تاریخی شہرت حاصل ہوئی۔ بچے بچے کی زبان پر یہ شعر تھا۔ تمام ہندوستانی مسلمانوں میں خلافت کے نظام کو بچانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے تھے۔

اُدھرجمہوریت کے نام پر قائم کی گئی ترک اسمبلی نے یکم نومبر سے 19 نومبر کے درمیانی عرصے میں جب کوئی عثمانی حکمران موجود نہ تھا، تمام نام نہادقانون سازی کرتے ہوئے سلطان کے تمام اختیارات سلب کرلیے۔ اب عثمانی خلیفہ اور عثمانی خلافت دونوں بے اختیار اوربرائے نام ہوچکے تھے، لیکن غیرت مند مسلمانوں کی کوشش تھی اس ادارے میں روح پھونکی جائے، جبکہ ’’برادری‘‘ اسے ہر حال میں جان کنی کی حالت میں مبتلا کر کے معدوم کردینا چاہتی تھی۔ تقریباً 2 سال تک یہ کشمکش چلتی رہی۔ آخر کار مصطفی کمال پاشا نامی شقی القلب نے جسے اس مقصد کے لیے برسراقتدار لایا گیا تھا، 3 مارچ 1924ء کو جدید جمہوریت اسمبلی کے ذریعے قرار داد منظور کروا کر ’’اسلامی خلافت‘‘ کے خاتمے کی نامبارک حرکت کر ڈالی۔ 1924ء سے لے کر 19 ویں صدی کی آخری دہائی تک کا عرصہ زمین پر خلافت کے وجود سے خالی تھا۔

تاآنکہ ملا عمر حفظہ اللہ نے امارت اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھ دی۔ دنیا کو اس شعر کا مصداق نظر آگیا:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اس حیرت انگیز کامیابی پر مغربی دنیا اور فری میسن کی صفوں میں تہلکہ برپا ہوگیا۔ تمام قوتیں اس امارت کے خاتمے کے لیے متفق ہوکر میدان میں کود پڑیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کے بچے کھچے، بے سرو سامان، نہتے مجاہدین تھے۔ ان قلندروں نے مقابلے کو دوبارہ صفر سے شروع کر کے 100 کے قریب پہنچا دیا اور عالم اسلام کو پھر ایک موقع فراہم کیا کہ ’’برادری‘‘ کے ہتھکنڈوں سے نکل کر اپنی اصل شناخت دوبارہ سے قائم کرے۔

ہم داستان بیان کرتے کرتے حالات حاضرہ کی طرف آگئے، جبکہ ابھی آخری حصہ باقی ہے۔ آئیے! اسے مکمل کرکے دیکھتے ہیں کہ ہم اس سے کیا عبرت و نصیحت حاصل کرسکتے ہیں؟ آخری سلطان تو ترکی سے جاچکے تھے۔ اب آخری خلیفہ کی روانگی کا تذکرہ دل پر پتھر رکھ کر سنیے! پتھر رکھنے کا مطلب یہ کہ ماضی کے دُکھوں یا غلطیوں پر بے صبری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، البتہ اگر ان سے پیدا ہونے والے غم وغصے کا رخ موڑ کر اسے اپنی اصلاح، دشمن سے انتقام اور ہدف کے تعاقب پر لگا دیا جائے تو تلافی مافات کی راہ نکل سکتی ہے۔ اس دل فگار واقعے کی منظر نگاری سے غرض صرف اتنی ہے کہ ہم یہ سمجھ جائیں کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ ہم آج کا کام آج کرلیں اور خوش فہمی یا مایوسی دونوں سے بچ کر چلتے رہیں تو بڑے سے بڑے دکھ کا مداوا ہو سکتا ہے۔ ہم نے خلافت سے ہاتھ دھونے کے بعد اسے سرے سے بھلا دیا ہے۔ یہ تو ہمارا آبائی ورثہ اور اجتماعی امانت ہے۔ اس سے غافل ہونے کا مطلب یہ ہے ہم مقصدِزندگی حاصل کرنے کے لیے نہیں معیاری زندگی بڑھانے کے لیے جی رہے ہیں۔ یہ تو حیوان بھی کرلیتا ہے۔ ہمارا مرتبہ تو بہت بلند اور اس کے تقاضے ہماری پہنچ سے بہت زیادہ دور نہیں۔ بعض خدا پرست دیوانے اس منصب کو پھر سے زندہ کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے غم تازہ کر کے ان کے مداوے کے لیے ان بوریا نشینوں کا ساتھ دیں تو اس قعرِ مذلت سے نکل سکتے ہیں۔ تو آئیے! یہ اندوہناک منظر ہراتے ہیں۔ شاید کوئی قبولیت کا آنسو آنکھ سے ٹپک پڑے۔

یہ 3 یا 4 مارچ 1924ء کی درمیانی شب اور تہجد کا وقت تھا۔ استنبول میں خلفائے اسلام کی سرکاری رہائش گاہ ’’دولمباباشی‘‘ محل کی لائبریری اس وقت بھی روشن تھی، کیونکہ عثمانی خلیفہ عبدالمجید قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھے۔ کاش! وہ قیام کے اس وقت میں سجدے میں نہ گرتے، اور قرآن پاک کی تلاوت کے بجائے قرآن پاک کے احکامات کی تلاوت و تنفیذ کرتے، تاہم محل کے باہر پُراسرار خاموشی طاری تھی۔ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ ایسی خاموشی جس کے پیچھے طوفان چھپا ہوتا ہے۔ پھر ہوا یہ کہ ترکی کی نیشنل آرمی کے دستوں نے محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک نمایندہ خصوصی پیغام کے ہمراہ محل میں بھجوایا۔

’’آؤ!‘‘ خلیفہ نے دروازے پر دستک سنتے ہی کہا۔ خلیفہ کے جانثار ملازم نے اطلاع دی محل کو ہر طرف سے گھیر ا جاچکا ہے اور استنبول (قسطنطنیہ) کے گورنر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ فری میسن سیکولر گورنر ڈاکٹر عدنان نے خلیفہ سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اسمبلی کے فیصلے سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ اپنا سامان باندھ لیں۔ انہیں فوراً ہی محل خالی کرنا ہوگا۔ ’’برادری‘‘ انہیں برداشت کرنے پر تیا ر نہ تھی۔ خلیفہ کے خاص ملازم نے خلیفہ کو آگاہ کیا کہ انکار کی صورت میں موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ یعنی بغیر کسی جرم کے جلاوطنی کی سزا اور اس سزا کو قبول نہ کرنے پر سزائے موت۔ خلیفہ نے کچھ سوچنے کے بعد احکامات پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں ذہنی طور پر اتنا ہراساں کردیا گیا تھا کسی قسم کی مزاحمت کی ہمت وہ خود میں نہ پاتے تھے۔

ایک گھنٹے بعد معزول عثمانی خلیفہ، اس کی اہلیہ، بیٹی اس حال میں محل سے نکلے کے ان کے پاس چند جوڑے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ وقتِ تہجد تھا جو بس رخصت ہی ہونے والا تھا اور فجر کی اذان ہونے ہی والی تھی۔ خلیفہ کو خاندان سمیت ترک نیشنل آرمی نے گھیرے میں لے لیا۔ انہیں استنبول ریلوے اسٹیشن لے جایا جارہا تھا، جہاں ’’اورینٹ ایکسپریس‘‘ کے ذریعے انہیں سوئٹزر لینڈ جلاوطن کیا جانا تھا۔ یہ طویل فاصلہ کے لیے چلنے والی ٹرین تھی جو ترکی سے یورپین ممالک تک جاتی تھی؟ اس کا آغاز 4 اکتوبر 1883ء کو ہوا تھا۔ اسٹیشن پہنچتے ہی خلیفہ کو ایک لفافہ پکڑا دیا گیا جس میں 2 ہزار برطانوی پاؤنڈ تھے۔ یہ تھا تین بر اعظموں پر مشتمل حکومت سے دستبرداری کے عوض خطیر نذرانہ۔ ٹرین کی سیٹی بجی تو خلیفہ اہلِ خانہ سمیت سوار ہوئے اور ٹرین سوئٹزر لینڈ کے لیے روانہ ہوگئی۔ سوئٹزر لینڈ میں کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد حکومت نے ان کو اوران کے اہلِ خانہ کو داخلے کی اجازت دے دی، بشرطیکہ وہ کوئی ایسا عمل نہیں کریں گے جو سوئس حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو۔ آخر تو تین براعظموں پر حکمران خاندان کے فرد پر یہ شرط تو لگائی جانی تھی، تاکہ وہ ارضِ حرمین یا ہندوستان نہ جاسکیں۔ (جاری ہے)

Related posts