جمہوریت میں قانون سازی کاحق

مولاناحکیم محموداحمدظفر

جمہوریت نے قانون سازی کے منبع (Source) کے بارہ میں یہ بات طے کردی ہے کہ اس میں اقتدار اعلیٰ عوام یاقوم کو حاصل ہوتاہے یعنی قوانین بنانااور دستور وضع کرناقوم کا اپناکام ہے۔اراکین پارلیمنٹ قوم کے نمائندے ہوتے ہیں ۔اور جب یہ کوئی قانون بناتے ہیں تو گویاوہ قانون قوم خود ہی بناتی ہے لیکن اسلام میں قانون سازی کامصدر صرف اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔چنانچہ اسلام میں قانون سازی کامصدر (Source) قرآن وسنت اور وہ چیزیں ہیں جن کی طرف یہ دونوں چیزیں راہ نمائی کرتی ہیں۔اسلام نے بڑی شدت کے ساتھ ایسے انسان یاجماعت کے مومن ہونے کی نفی کی ہے جوغیراللہ سے فیصلے طلب کرانے کے لئے اس کی طرف جاتی ہے ۔پس جب اسلام اورجمہوریت میں قانون سازی کامصدر ایک نہیں بلکہ دونوں میں کامل تناقض ہے تومعلوم ہوا کہ اسلام ااور جمہوریت کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل سکتے ۔جمہوریت کارکن اعظم اور بنیادی ستون عوام کی حاکمیت ہے ،جس کامطلب یہ ہے کہ طاقت کاسر چشمہ عوام ہے، عوام کاہر فیصلہ جو کثرت رائے سے ہوناقابل تنسیخ اور واجب العمل ہے اور یہی چیز کفرہے ۔کیونکہ اسلام میں طاقت کاسرچشمہ عوام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ حاکم اعلیٰ عوام نہیں بلکہ اللہ رب العزت ہیں۔

دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اکثرجاہل اوراحمق ہوتی ہے۔ دنیاکے بڑے بڑے محققین نے اس کو تسلیم کیاہے۔ لہذاجمہوریت کے اس اصول کے تحت نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جمہوریت ایک ایسانظام حکومت ہے جس میں جہلاء اورحمقاء کی اکثریت علماء اورعقلاء کی اقلیت پرحکمرانی کرتی ہے۔اسی وجہ سے موجودہ زمانے کے ماہرین سیاست نے جمہوریت کو اس کے ان نقائص کی وجہ سے ناپسند کیاہے، چنانچہ مشہور ماہر سیاست Burke نے لکھاہے کہ اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرناکوئی فطرت کاقانون نہیں ہے۔کم تعداد بعض اوقات زیادہ مضبوط طاقت بھی ہوسکتی ہے اوراکثریت کی حرص وآزکے مقابلہ میں اس کے اندر زیادہ معقولیت بھی ہوسکتی ہے۔لہذایہ مقولہ کہ اکثریت کے فیصلے کوقانون بنناچاہیے اس میں افادیت اورپالیسی کی بھی اتنی ہی کمی ہے جتنی حقانیت کی ،اسی وجہ سے ماہرین سیاست نے جاہل اکثریت کی بجائے عاقل اقلیت کو حکومت کامستحق قراردیاہے۔کیونکہ حکومت عقل سے ہوتی ہے جہالت سے نہیں ۔چنانچہ روسونے اس بات کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت کا بہترین اور سب سے فطری انتظام یہ ہے کہ عقل مندترین انسان کوکثرت پرحکومت کرنی چاہیے بشرطیکہ اس بات کی ضمانت مل جائے کہ وہ اس کثرت کے مفاد کے لیے حکومت کرے گانہ کہ اپنے مفادکے لیے ۔(OP Cit Page 127) اورکار لائل نے تواور بھی واضح الفاظ میں اس بات کویوں کہاہے کہ کسی بھی ملک میں وہاں کے قابل ترین آدمی کودریافت کرلو۔پھر اسے اٹھاکر اطاعت کے اعلیٰ ترین مقام پر رکھ دو اور اس کی عزت کرو۔اس طرح تم اس ملک کے لیے ایک مکمل حکومت دریافت کر لوگے ۔پھر بیلٹ بکس یاپارلیمنٹ میں ہونے والی فصاحت وبلاغت یارائے شماری یادستور سازی یاکسی بھی قسم کی کوئی اور مشینری اس حکومت میں کوئی بہتر اضافہ نہیں کرسکے گی۔یہ ایک مکمل ریاست ہوگی اور وہ ملک ایک مثالی ملک ہوگا۔
جمہوریت صرف اکثریت کی حکومت کانام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل فلسفہ حیات اور ایک پورا نظام زندگی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔مشرق اورمغرب کے لوگوں کے مزاج میں بہت فرق ہے ،بالفرض جمہوریت اگرخلاف اسلام نہ بھی ہو پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ جونظام ان کے مزاج کوراس آتاہے وہ ہمیں بھی راس آجائے ۔الیکشن مغرب میں بھی ہوتے ہیں، اگر چہ وہاںپولیس اورفوج کاالیکشن کے لیے انتظام نہیں ہوتاپھربھی نہ وہاں الیکشن میں دھاندلی ہوتی ہے اور نہ قتل وغارت ۔لیکن ہمارے ہاں حکومت اگر ایڑی چوٹی کازور بھی لگالے پھر بھی دھونس اوردھاندلی کونہیں روک سکتی ۔مغربی ممالک میں ایک ووٹر ووٹ دیتے وقت امیدوارکی خوبیوں اوراس کی تعلیمی قابلیت کو دیکھتاہے لیکن ہمارے ہاں برادری ازم ،فرقہ واریت ،صوبائیت اواراس قسم کی کئی ایک دوسری چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔قابلیت اور تجربہ کوکوئی ووٹر بھی خاطر میں نہیں لاتاہے۔یاپھررعب اور مال کے ذریعے ووٹ خریدے جاتے ہیں ۔جس امیدوار کے پاس زیادہ غنڈے ہوں اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔
جمہوریت کے خلاف اسلام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں حاکمیت اعلیٰ عوام کی ہوتی ہے جب کہ اسلامی نظام حکومت میں حاکمیت اعلیٰ (Sovereugnty) صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہوتی ہے۔گویاجمہوریت میں عوام اللہ عزوجل کے مقابل ٹھرتے ہیں۔ایک مومن صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کو اپناحاکم حقیقی سمجھتاہے اوراللہ کے سواباقی سب کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مقابلہ میں بتان آذری تصور کرتاہے۔ایک مرد مومن صرف ایک ہی ذات کامحکوم ہے اور وہ ایک ہی حاکم کاحکم مانتاہے۔کیونکہ اسے کہاگیاہے ۔ان الحکم الا للہ(حکم صرف اللہ ہی کاہے )
حاکمیت جمہور کے فلسفہ کی اصل اساس یہ ہے کہ عوام کی مرضی ہی اصل حاکم ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عوام کی مرضی کو کس طرح معلوم کیاجائے ۔ہرفرد کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔اتنی متضاد آراء میں سے ایک ایسی رائے (جس کو روسونے General Willکانام دیا) کاتلاش کرناجو سب کے لیے قابل قبول ہو،نہایت مشکل بلکہ جوئے شیر لانے کے متراف ہے۔لہذایہ کہاجاسکتاہے کہ رائے عامہ سے مرادسارے عوام کی رائے نہیں بلکہ ملک کی اکثریت کی رائے ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت کی رائے کااندازہ کس طرح لگایاجاسکتاہے ۔ایک شخص کے لیے جومعاشرہ میں رہتاہے یہ کسی طر ح ممکن نہیں کہ وہ بغیر دباؤکے اپنی اصل رائے کااظہارکرسکے ۔ جب وہ اپنی اصل رائے کااظہارہی نہیں کرسکتاتوجمہورکی حاکمیت کیسی؟ معلوم ہواکہ حاکمیت جمہورکفر ہونے کے ساتھ غیر معقول بھی ہے۔
جمہوریت میں پارلیمنٹ کے اندر دو گروہوں کاہوناضروری ہے۔ایک حزب اقتدار اور دوسراحزب اختلاف ۔حزب اقتدارکامقصد اپنی مرضی کے مطابق قوانین بنانااور عوام پر ٹھوسناہوتاہے، جبکہ حزب اختلاف کی غرض وغایت حزب اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر حزب قتدار شریعت بل بھی پیش کرے تو حزب اختلاف اس کی بھی مخالفت کرے گا۔اس کے برعکس اسلام کے نظام حکومت میں نہ کوئی حزب اختلاف ہے اور نہ کوئی حزب اقتدار بلکہ پارلیمنٹ کاہر ممبر حزب اقتدار میں بھی ہے اور حزب اختلاف میں بھی۔سربراہ مملکت اگر درست بات کرتاہے تو پارلیمنٹ کاہرفرد اس کی حمایت کرے گالیکن اگر وہ نادرست اور غلط بات کرتاہے توفرد کایہ حق ہے کہ اس کی مخالفت کرے ۔اس کو راہ راست پر لائے ۔اسلامی نظام حکومت اور جمہوریت میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں بندوں کوتولاجاتاہے جب کہ جمہوری نظام حکومت میں بندوں کوگناجاتاہے ۔
یہ نظام فطرت کے خلاف ہے کہ ہر شخص کی رائے کاوزن ایک جیساہو۔ہماراہرروز کامشاہدہ ہے کہ ہرحکومت میں اوردنیاکے ہرخطہ میں ہرشخص کاالگ الگ مقام ہے۔اس کااستحصال کیاجاسکتاہے،اس کو لالچ دیاجاسکتاہے،اس کومشتعل کیاجاسکتاہے ،اس کو دھوکہ دیاجاسکتاہے۔ایسی غیرمستقل چیزپر جس ریاست کی بنیاد رکھی جائے گی اس میں نہ تواستقلال وپائیداری پائی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ انسانیت کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔جمہوریت کاواحد مقصد یہ ہوتاہے کہ اقتدار کی باگیں عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں دے دی جائیں لیکن عوام اور جمہورجن کو اتنا بڑااوراہم کام سپرد کیاجاتاہے خود ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ غربت ان کے اندر غور وفکراور سوچ وبچار کی ساری صلاحیتوں کو مفلوج کردیتی ہے۔ان میں اتنی بصیرت اوراتنی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے نفع ونقصان کاصحیح طور پرفیصلہ کرسکیں ۔جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح اپنے الگ الگ گروہ بنالیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اپنے دھڑے کے با اختیارلوگوں کی حمایت کرنااپنی زندگی کاکمال سمجھتے ہیں ۔ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی بلکہ ان کی آوازان کے گروہ اور پارٹی کی صدائے بازگشت ہوتی ہے ۔چنانچہ پروفیسر ہیرلڈ لاسکی(Herald Laski) لکھتاہے کہ رائے عامہ نہ توسرچشمہ علم ہے اور نہ عقل وفہم ،بلکہ اسے ہمیشہ اپنے گروہ اور پارٹی کے مفادات جنم دیتے ہیں ۔اسی وجہ سے انتخابات میں فیصلے ایسے عجیب وغریب وجوہ کی بناپر کئے جاتے ہیں جن کاکسی طرح بھی علمی تجزیہ (Scientific Analysis) نہیں کیاجاسکتا۔
انتخابات کااگر ایک سرسری جائزہ لیں تویہ بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ لوگ عموماکسی کوآگے لگاتے وقت اورقوم کی زمام اس کے ہاتھ میں دیتے وقت اس کے اخلاقی اورذہنی اوصاف نہیں دیکھتے، وہ اکثر صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ نعرہ کتنے زور کالگاتاہے اور زبان کے استعمال میں کس قدر مطلق العنان ہے ۔وہ انہی لوگوں پر فریفتہ ہوتے ہیں جوان کارخ حقائق سے موڑکر انہیں آرزوؤں اورتمناؤں کی جنت میں لے چلیں ۔وہ حقائق سے آشناکرنے والوں اور عقل کی بات بتانے والوں کواپنادشمن اورخوش کن باتیں کرنے والوں اوربھڑکیں مارنے والوں کو اپنامحسن اورخیر خواہ سمجھتے ہیں َ،وہ اسی شخص کے نعرے لگاتے ہیں جو ان کے سامنے انہیں ہوائی خوش نماباتیں پیش کرے۔

Related posts