جمہوریت یا اسلام

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

جمہوریت محض ایک لفظ نہیں ایک تصور ہے ، ہر تصور کو سمجھنے کے لئے اس کی تاریخ جاننا ضروری ہے ۔ موجودہ تصور جمہوریت 18ویں صدی کی یورپی فکر کی پیداوار ہے ۔ موجودہ جمہوری فکر کا سب سے اہم بانی روسو(Rousseau)ہے ۔ رو سونے مطلق العنان بادشاہت کے خلاف بغاوت کی نظری بنیادیں فراہم کیں ۔ پروٹسٹنٹ عیسائیت مطلق عنان بادشاہوں کو واحد جائز قانون ساز کی حیثیت سے تسلیم کرتی تھی ، پروٹسٹنٹ عیسائیت کادعوی تھا کہ بادشاہ خداکانائب ہے اور وہ قانون بناتا ہے خدا کی مرضی سے بناتا ہے ۔ عیسائیت کی اپنی کوئی شریعت موجود نہ تھی اور دین دار دنیا کے الگ الگدائرہ کار ہونے کے تصورپر(St.Augestine)کے زمانے سے (یعنی چوتھی پانچویں صدی عیسوی پر)تمام عیسائی فرقوں کے مابین اجماع ہوگیاتھا۔ لہٰذ جب پروٹسٹنٹوں نے بادشاہ کی الوہیت (Sivine Sught Of the King)دعویٰ پیش کیاتوکیتھولک اورتھوڈوکس مکاتیب کے پاس اس کورد کرنے کاکوئی جواز نہیں تھا، پاپائے روم دنیوی بالخصوص سیاسی معاملات میں قانون سازی آیات انجیل بہ احادیث عیسیٰ علیہ السّلام کی بنیاد پرنہیں کرسکااورفرانس جیسے کٹرعیسائی ملک میں بھی بوربون (Bowrboun)خاندان کی مطلق العنان بادشاہت کی کیتھولک چرچ کوبھرپور حمایت حاصل ہوگئی۔

روسواوردیگر لبرمفکرین نے اسی (Sivine Sught Of the King)کے تصورکورد کردیا۔ روسونے کہاکہ اس تصورکی بنیاد پرجوسیاسی نظام قائم ہوتا ہے وہ ایک ظالمانہ اورجابرانہ نظام ہوتا ہے ۔روسونے کہا کہ بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرکے ان سے قانون سازی کاحق چھین لیناچاہئے ۔ قانون سازی کا حق ہرشہری کو حاصل ہوناچاہئے ، روسونے (Sivine Sught Of the King)کے تصور کی جگہSivine Of the Citezen) (Divne Of کے نظرئیے کورکھا۔ یہی نظریہ موجودہ تصورجمہوریت کابنیادی عقیدہ ہے ۔ اس تصورکوہم ”لاالہ الا انسان”کے خبیث کلمہ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔ ”

اگرقانون سازی پرسٹیزن کا حق ہے تولازماًقانون سازی کی بنیاد انسانی خواہشات ہوں گی کیونکہ جیسے موجودہ معاشیات کے ایک اہم مفکرنے کہا”عقل خواہشات کی غلام ہے ”رو سونے بھی قانون سازی کے عمل کو خواہشات کے تابع تصورکیاہے ۔ وہ کہتاہے کہ عادلانہ معاشرہ کے قیام کا طریقہ یہ ہے کہ تمام سٹیزن ایک معاہدہ عمرانی میں شریک ہوں جو ارادہ عمومی کی تشریح اور تعبیر کرے ، یہ ارادئہ عمومی حق باطل اور خیر وشر کی شناخت کرے ۔ حق وہی ہے جس کوارادئہ عمومی حق گردانے ، واحد غیرمتبدل معیار خیروشریہی ارادئہ عمومی ہے ۔ اس ارادہ عمومی کویہ حق بھی حاص ل ہے کہ جس چیز کوایک وقت میں حق گردانے اس کوکسی اوروقت میں باطل قراردے دے ۔ اسی تصور کی بنیاد پراٹھارویں صدی میں دوبڑے انقلابات رونماہوئے ، پہلے امریکامیں اورپھرفرانس میں ، دنوں ممالک میںجوسالوں کے عرصے میں یہ نظام پورے یورپ اورامریکا پرچھاگیاہے ، اسی سیاسی نظام کے غلبہ کے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں ۔

٭یورپ اورامریکا سے مذہب کاجنازہ نکل گیا۔ معاشرتی سطح پرلبرل اقدار مکمل طورپرغالب آگیں ، ہرنوع کی عیسائیت (کیتھولک ، پروٹسٹنٹ ، ارتھوڈوکس ) نے اپنی لبرل تعبیر پیش کی ۔ اللہ کے قادر مطلق اورمالک الملک ہونے کاتصور معدوم ہو گیا، قانون سازی میں احکامات الہی سے ہدایت حاصل کرنے کے عمل کو خارج کردیاگیا۔ حقوق العباد کورد کر کے حقوق انسانی کے غلیظ اور مکروہ تصورات کی بنیاد پر معاشرتی اقدار کاتعین کیا جانے لگا۔ اخروی زندگی کویکسربھلادیاگیا۔

٭اخلاقی پستی اورگراوٹ اپنی انتہاکوپہنچ گئی ۔ حیا، عفت اورعصمت کے تصورات لایعنی ہوگئے ۔ زنااوراغلام بازی ایک وباکی طرح پورے معاشرے میں پھیل گئی ۔ آج سوئیڈن میں 60فیصد بچے ناجائز پیداہوتے ہیں ، امریکاکی تقریبا25فیصد آبادی ہم جنس پرست ہے ۔ برطانیہ کے شہر لیور پول (Liver Pool)میں 2001ء میں کئے جانے والے سروے کے مطابق اس شہر کے اسکولوں میں پڑھنے والی بچیاں 9سال کی عمر میں زنابالجبر کاعموما شکارہوجاتی ہیں ۔ نفس پرستی کالازمی نتیجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل غلبہ کے طورپر نکلا۔ آج یورپ اورامریکا میں حلال رزق کمانابالکل ناممکن ہو گیا، ہر شخص سرمایہ کی بڑھوتری میں اضافہ کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں کھپا دے ۔ اس کی روحانی زندگی تباہ ہوگئی ہے ، لبرل اور سوشلزم کے پاس روحانیت کا سرے سے کوئی تصور موجود نہیں اوریہ نظریات یورپ اورامریکا کے ہرشخص کو حرص ، حسد ، دنیا پرستی کی تعلیم دیتے ہیں اور ہوس ناکی اور سفاکی کے فروغ کو عقل کاعین تقاضا گردانتے ہیں ۔

ان حقائق کوسامنے رکھ کر یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عمومی حالات میں جمہوری طریقہ اپناکرمعاشرتی اور ریاستی سطح پرنفاذ اسلام ناممکن ہے ۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جیسے جیسے کسی معاشرے میںجمہوریت جڑپکڑتی ہے ویسے ویسے اخلاق رذیلہ فروغ پاتے ہیں ۔ لوگ اپنے نفس کواپناآلہ بنالیتے ہیں، اسلامی عصبیت معدوم ہو جاتی ہے اورلوگ سرمایہ کے غلام بن جاتے ہیں ۔ وہ لبرل حکومتوں کے بہیمانہ مظالم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح یورپ کے عیسائی ، امریکامیں 70لاکھ ریڈ انڈینز کے منظم قتل عام پر خاموش رہے ، اسی طرح ہم افغانستان اورفلسطین میں امریکی مظالمپرخاموش ہیں ۔ جمہوری ریاست کا شہری عموماً بے غیرت ، بے حیاء لذت پرست اورخدافراموش ہوتاہے ۔ پھرکیاوجہ ہے کہ ملک کی تقریبا تمام اسلامی اورسیاسی جماعتیں جمہوریت کورد نہیںکرتیں ۔ یہ جماعتیں جمہوریت کی اصلیت سے صرف نظر کر کے اس کی ایک لفظ ی تشریح کرتی ہیں اوراسی لفظی تشریح کی بنیاد پراس کا اسلام سے تعلق بیان کرتی ہیں۔ اس رویے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلامی جماعتوں کی مجبوریوں پربھی نظررکھیں ۔جمہوریت سے مصالحت کی داستان 1920ء سے شروع ہوتی ہے ، اس وقت خلافت عثمانیہ تہس نہس ہو چکی تھی ، برصغیر کی دو جہادی تحریکیں جو1857ء سے کسی نہ کسی شکل میں جاری تھیں ختم ہوچکی تھیں اورمسلمان عوام میں سیکولر جماعتیں مقبولیت پارہی تھیں ۔ اس ماحول میں علماء کرام جمہوری دستوری نظام کی مخالفت سے دستبردار ہونے پرمجبورہوگئے اور تحریک استخلاص وطن اور تحریک پاکستان میں سرگرم سیکولرجماعتوں کانگریس اورمسلم لیگ سے یہ توقع قائم کرلی گئی کہ وہ فروغ دین کے معاملے میں ایک غیرجانبدار کردار اداکریں گی ۔ مسلم لیگ سے تویہ توقع باندھی گئی تھی کہ وہ شریعت کونافذ کرکے ایک اسلامی ریاست قائم کرے گی ۔

علامء کی ان غلط فہیموں کاسب سے واضح اظہار اس وقت ہوا جب 1948.49ء میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے اپنا پورازور قرار داد مقاصد کی پارلیمانی منظوری کی مہم پرلگادیا۔جب یہ قرار داد منظور ہوگئی توعلماء نے پاکستان کوایک اسلامی ریاست قرار دے دیا حالانکہ یہاں شریعت نافذ ہوئی نہ اسلامی علوم کے معاشرتی و سلطنت انہی بنیادوں پرچلتارہاجو برطانوی استعمار مرتب کرگیاتھااورپاکستان عالمی استعماری نظام کاجزولاینفک 11اگست 1947ء ہی سے بن گیاتھا۔ ایک اورغلط فہمی جوعام ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں کے عوام غلبہ اسلام کے خواہش مندہیں اوراگران کوانتخابات میں اظہار رائے کاموقع دیاجائے تووہ اسلامی جماعتوں کوہی منتخب کریں گے ۔ انتخابات میں پے درپے ناکامیوں کے باوجود معاشرتی صلح پر سرمایہ داری اورسیکولر اقوام کے فروغ نے ثابت کردیاہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ایک خالص سیکولرریاست ہے جوامریکی استعمار کی باج گزاررہی ہے ۔ قراردادمقاصد اور دستور کی دیگراسلامی دفعات محض سیاسی اشرافیہ کی منافقت کااظہار ہیں اورکچھ نہیں ۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت نہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہے اورنہ گزارنا چاہتی ہے ۔

ان حالات میں جمہوری عمل سے یہ توقع رکھناکہ اس کے نتیجے میں اسلامی عصبیت بیدار ہوگی اوراستعمار سے نجات حاصل ہوگی ، ایک غیرحقیقت پسندانہ بات ہے ۔ اگرہمیں اسلامی عصبیت کوابھارناہے اورامریکی استعمارسے نجات حاصل کرنی ہے تواس کے لئے ضروری ہے کہ عوام میں سے ایک گروہ حصول رضائے الہی کومقدم جان کراس کے لئے اپنی خواہشات کوقربان کرنے کے لئے بتدریج آمادہ ہو۔ یہ لوگ بالخصوص علماء اپنی مساجد کی قیادت میں محلے اوربازار کی سطح پرمنظم ہوں ۔ محلے اور بازار کی سطح پرتنفیذ شریعت اوراعانت جہاد افغانستان اور کشمیر کاکام عملاً مرتب ہو۔ ظاہرہے کہ یہ جدوجہد جمہوری اصولوں کی پابندی کرکے نہیں چلائی جاسکتی ۔ جمہوری عمل میں شمولیت سے ہم اس بات پرمجبورہوجاتاے ہیں کہ اسلام کوعوامی حقوق کے حصول اور خواہشات نفس کی تکمیل کاذریعہ بناکرپیش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے متعقل مہمات کبھی بھی صحیح دعوت کاذریعہ نہیں بن سکیں ۔ اس کے برعکس جب اسلامی جماعتوں کے کارکن انقلابی بنیادوںکواہل دین کی عملی قیادت تلے منظم کرتے ہیں تو روحانیت اور اخلاق حمیدہ فروغ پاتے ہیں کیونکہ مجاہدین اورانقلابیوں کی بنیادی دعوت حصول رضائے الہٰی اور نفسانیت کی رد پرمبنی ہوتی ہے ۔

یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں جمہوری عمل سے مکمل پہلوتہی ممکن نہیں اوراس شمولیت کے نتیجے میں تحفظ دین کاکچھ کام لیاجاسکتاہے ۔ مثلاًاگربلوچستان اورسرحد میں ہماری انتخابی کارکردگی بہتررہی ہے توصوبوں سے استعمارکی بے دخلی کی تحریک کوفائدہ پہنچ سکتاہے ۔ اس میں انتخابی عمل ، انقلابی جدوجہد اورمجاہدین کے کام کوتحفظ دینے کاذریعہ بن سکتاہے لیکن جمہوری عمل کے ذریعے ان عوام کی قلبی کیفیات بدلی جا سکتی ہیں تاکہ وہ حصول رضائے الہٰی کے لئے قربانیاں پیش کریں ۔ عوام کوغلبہ دین کی جدوجہد کے لئے علماء کرام کی قیادت تلے منظم کیاجاسکتاہے ۔ چونکہ یہ وہ کام ہے جس کی بنیاد پرشریعت کانفاذ اوراعانت جہاد افغانستان وکشمیرممکن ہوسکتی ہے لہٰذا مقدم یہی کام ہے ۔ جیسے جیسے یہ انقلابی جدوجہد جڑپکڑ ے گی اسلامی جماعتوں کے لئے جہموری عمل کومسترد کرنا آسان ہوجائے گا۔

اکتوبر2002ء کی انتخابی مہم کاسب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ اسلامی جماعتیں سیکولرجماعتوں کے ساتھ سمجھوتے کریں ، خواہ انتخابی اتحاد ہویاسیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کی شکل ہو۔ سیکولر جماعتوں سے کسی نوعیت کے اشتراک عمل کاکوئی جواز نہیں ۔ یہ سب پارٹیاں ، مسلم لیگ کے تمام دھڑے ،پیپلز پارٹی ، اے این پی ، متحدہ قومی موومنٹ ، نیشنل الائنس اورتحریک انصاف استعمار کی باج گزار اورخالص لادین جماعتیں ہیں ۔ یہ جماعتیں چاہتی ہیں کہ ہماراانقلابی اسلامی تشخص بحالی دستورکی مہمات میں دب جائے اورمہم نفاذ شریعت اور اعانت جہاد افغانستان اور کشمیر کا ذکر نہ کریں ۔ اگر اسلامی جماعتیں نوابزادہ نصر اللہ خان کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئیں توسیکولرجماعتیں سرخروہوجائیں گی ، کل وہ اسلامی جماعتوں کواسی طرح ذلیل کرکے ایوان اقتدار سے نکالیں گی جس طرح 1992ء میں نواز شریف نے جماعت اسلامی کونکالاتھااورامریکاکی گرفت پاکستان پرمضبوط ہوجائے گی ۔

ہمیں اکتوبر2002ء کے انتخابات کونفاذ شریعت اوراعانت جہاد افغانستان وکشمیر کی ایک مہم بنادینا چاہئے ، ایک ایسی مہم جس سے عوام میں اسلامی عصبیت پھیلے اوروہ ائمہ مساجد کی قیادت میںمحلہ ، محلہ ، بازاربازار متحد اورمنظم ہوں ۔ نفاذ شریعت کی مخالفت پرہمیں سیکولر جماعتوں کوعوام میں بے نقاب کرناہے ۔ ہم اسلامی انقلابی مجاہدین افغانستان وکشمیرکے خادم اورپشت پناہ ہیں، ہمیں بحالی جمہوریت سے امریکا کو یہاں سے بے دخل نہیں کیاجاسکتا۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں ہمارابنیادی مطالبہ یہ ہوناچاہئے کہ ”امریکا کو پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکال دو۔”

Related posts