سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

مولانا محمد زاہد اقبال

علا مہ ذہبی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جامع کمالات واوصاف شخصیت کی عکاسی مختصر مگربڑے بلیغ انداز میں کی ہے،فرماتے ہیں:عثمان ابوعمروالاموی ذوالنورین تھے،ان سے فرشتوں کو بھی حیاآتی تھی،انھوں نے ساری امت کوان میں اختلاف پڑجانے کے بعدایک قرآن پر جمع کردیا،ان کے عہداروں نے مشرق میں اقلیم خراسان اورمغرب میںمغرب اقصیٰ تک سب فتح کرڈالا،وہ بالکل سچے اورکھرے ،عابد شب زندہ دارصائم النہار اوراللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے تھے وہ ان لوگوںمیں سے تھے،جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے جنت کی شہادت دی ہے اورآپصلی اللہ علیہ وسلمنے اپنی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ اورام کلثوم کا نکاح ان سے کیاتھا۔،، (تذکرةالحفاظ تذکرہ عثمان)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت عثمان سے محبت:اولین سابقین ومہاجرین میں سے ہونے اوراسلام کی خدمات جلیلہ کے باعث بارگاہ نبوت میں حضرت عثمان کا جومرتبہ ومقام تھااس کے شواہدودالائل کثرت سے موقع بہ موقع گذشتہ صفحات میںگذرچکے ہیں۔بڑی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکو طبعاً حضرت عثمانسے بڑی محبت تھی آپصلی اللہ علیہ وسلمان کابڑالحاظ کرتے اوردلجوئی بھی فرماتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت ام کلثوم نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمسے کہا:فاطمہ کے شوہر(علی)میرے شوہر(عثمان)سے بہترہیں!آپصلی اللہ علیہ وسلمپہلے تو خاموش رہے۔پھرارشادفرمایا:بیٹی!تیراشوہرتووہ ہے جس سے اللہ اور اس کارسول دونوں محبت کرتے ہیںاوروہ بھی اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتا ہے،کیاتم کویہ بات پسند نہیںکہ تم جنت میں داخل ہوگی تو تم دیکھوگی کہ وہاںتمہارے شوہرکامکان سب لوگوں کے مکان سے اونچاہے۔،، (البداتیہ والنہاتیہ:ج٧ص٢١٣وکتاب صفة الصفوة ابن جوزی :ج١ص١١٤)
ابوسعیدالخدری کابیان ہے،ایک مرتبہ میںنے دیکھاکہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلماول شب سے طلوع فجرتک آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے یہ دعافرتے رہے :اے اللہ! میں عثمان سے خوش ہوتوبھی اس سے خوش رہ۔(البداتیہ والنہاتیہ ج٧ ص٢١٣)حضرت جابرکی روایت ہے :ایک مرتبہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت عثمان کو گلے سے لگایااورفرمایا:عثمان!تم دنیا میں بھی میرے ولی ہواورآخرت میں بھی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں:رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم جب عثمان کے لیے ہاتھ اٹھاکردعاکرتے توآپ کے ہاتھ اتنے بلند ہوجاتے کہ آپ کی بغل کا نچلاحصّہ ظاہرہوجاتاتھا۔اس طرح کسی اورکے لیے دعامانگتے ہوئے میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمکونہیں دیکھا۔،، (کنزالعمال:ج١٥ص٤١)ایک مرتبہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہکے گھرمیںتھے کہ عثمان کی طرف سے خبصیةجوعرب کی محبوب غذاہے بطورتحفہ آیا۔حضورنے اسے دیکھاتوبے ساختہ آسمان کی جانب دونوںہاتھ اٹھائے اوردعافرمائی:اے اللہ عثمان تیری رضاکاطلب گارہے ،تواس سے راضی ہوجا۔(البداتیہ والنہاتیہ :ج٧ص٢١٣)اس غایت محبت اورتعلق خاطرکی وجہ سے اگرکوئی شخص حضرت عثمانسے بغض وغسادرکھتاتھا تو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلماس سے سخت کبیدہ خاطرہوجاتے تھے،چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی کاجنازہ آیا توآنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے نمازجنازہ پڑھنے سے انکارفرمادیا۔لوگوں نے سبب دریافت کیاتو ارشادہوا:یہ شخص عثمان سے بغض رکھتاتھا، اس لیے میں نے نمازنہیں پڑھی۔،،(کنزالعمال:ج١٥ص٣٠)
حضرت عثمانکے ساتھآنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکی والہانہ محبت،ان کاغیرمعمولی لحاظ اورتوقیرخودحضرت عثمان کے خیرمجسم ہونے کی دلیل ہے۔چنانچہ قرآن کی بعض آیات میں بھی حضرت عثمان کی طرف تلمیح کی گئی ہے۔عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ قرآن میں مندرجہ ذیل آیت حضرت عثمان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔،،(طبقات ابن سعد:ج٣ص٤١)اَمَّنْ ہُوَقَانِتُُُ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًاوَّقَآئِمًایَّحْذَرُالاٰخِرَةَ وَیَرْجُوْارَحْمَةَرَبِّہ”بھلا جو شخص رات کے اوقات تنہائی میں خداکی بندگی میںلگا ہے(کبھی اس جناب میں سجدہ کرتا ہے اورکبھی اس کے حضورمیں دسة بسة کھڑاہوتا۔آخرت سے ڈرتااوراپنے پرودگارکے فضل کاامیدوارہے(کہیںایساشخص بندئہ نافرمان ک برابرہوسکتاہے۔”اسی طرح ایک اور آیت ہے جوعبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق حضرت عثمان کی شان میں نازل ہوئی تھی وہ آیت ہے:” (طبقات ابن سعد:ج٣ص٤١) ہَلْ یَسْتَوِیْ ہُوَوَمَنْ یَاْمُرُبِالْعَدْلِ وَہُوَعَلیٰ صِرَاطِِ مُسْتَقِِِیم۔،،کیا ایسا غلام اوروہ شخص دونوں برابرہوسکتے ہیں جولوگوںکواعتدال پر قائم رہنے کوکہتا اورخودبھی اعتدال یعنی انصاف کے سیدھے راستہ پر قائم ہے۔ان وجوہ کی بناپرتمام صحابہ کرام کا اس پراتفاق تھا کہ شخین کے بعد مرتبہ ومقام حضرت عثمان کا ہی ہے۔صیحح بخاری کی ایک روایت میں عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں۔،، ہم عہدنبوی میں لوگوں کے طبقات اورمدارج بیان کرتے تھے توحضرت ابوبکر،حضرت عمر اورحضرت عثمان کو علی الترتیب درجہء اعلیٰ میں رکھتے تھے۔،، (کتاب المناقب باب فضل ابی بکر)حضرت عبداللہ بن عمرنے ایک اور روایت میں اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں حضرت ابو بکرکامرتبہ ومقام سب سے اونچا جانتے تھے ،اس کے بعدمرتبہ حضرت عمرکا اورپھرعثمان کامانتے تھے اوراس کے بعدصحابہ میں تعادل وتفاضل نہیں کرتے تھے۔،، (صیحح بخاری باب مناقب عثمان)
یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکے خاص واقعات میں حضرت ابوبکراورحضرت عثمان ایک ساتھ ہی بلاشرکتِ غیرے نظرآتے ہیں ،مثلًا مندرجہ ذیل دوحدیثیں دیکھیے جن میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت عثمان کی شہادت کی پیش گوئی بھی کی ہے۔(١)صیحح بخاری میں حضرت موسی اشعری سے روایت ہے،فرماتے ہیں:ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغیچہ میں داخل ہوئے اور کو حکم دیا کہ اس کے دروازہ کی نگرانی کروں،اتنے میں ایک شخص آیااس نے اجازت طلب کی تو حضورنے مجھ سے فرمایا،اس شخص کو اندر آنے دواوراس کوجنت کی بشارت دے دو،اب یہ شخص اندرآیا تودیکھا کہ ابوبکرتھے،اس کے بعد ایک اور شخص آیاتواس کی اجازت طلبی پر حضورنے پھروہی فرمایا:اسے اندرآنے دواوراسے جنت کی بشارت سنادو،اب دیکھاتو یہ عمرتھے ،اس کے بعد ایک اورشخص آیااوراس نیاجازت طلب کی تواس مرتبہ ارشادنبوی ہوا۔ابوموسیٰ!تم اس شخص کو اندرآنے کی اجازت دے دو اورجومصیبت اس کوپہونچنے والی ہے اس پر اسے جنت کی بشارت سنادو۔اب یہ شخص اندرآیاتو دیکھاکہ یہ عثمان بن عفان تھے۔اس روایت کو ابوموسیٰ اشعری سے عاصم الاحول نے بھی نقل کیاہے ،اوراس میں مزیدیہ بھی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں پانی تھااورآپ کاگٹھنا کھلاہوا تھا،جب عثمان اندرآئے توآپصلی اللہ علیہ وسلمنے گٹھناڈھانپ لیا ۔،، (صیحح بخاری باب مناقب عثمان)(٢)
دوسرا واقعہ یہ ہے، حضرت انسکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابوبکروعمراورعثمانکے ساتھ احد پہاڑپر چڑھے توپہاڑلرزنے لگا،رسول اللہۖنے فرمایا(اورایک روایت میں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے پہلے پہاڑپرپیرمارااورپھرفرمایا:)اے احدٹھہر!تیرے اوپرایک نبی،ایک صدیق اوردوشہیدہی توہیں۔،، (ایضاً)علامہ ابن کثیرنے البداتیہ والنہاتیہ میںحضرت عثمان کے فضائل ومناقب میں کثرت سے روایات نقل کی ہیں۔ان میں بھی متعددروایات ہیں جن میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلماوراصحاب ثلاثہ ایک ساتھ ہی نظرآتے ہیں۔،،

Related posts