سید نا علی سیرت و کردار رضی اللہ عنہ

مولانا محمد زاہد اقبال

خاتم الانبیاء حضرت محمدرسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے نبوت ورسالت عطاہونے کے بعدتوحیدکی صدالگائی اوراس پرلبیک کہنے والوںکوتعلیم،تربیت،تزکیہ نفس اوردعوت وجہادکے مراحل سے گزارتے ہوئے ایسامعاشرہ تشکیل دیااورایسانظام نافذفرمایاجس کی مثال چشم فلک نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔نبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے جوکھیپ تیارکی انہیںصحابہ کرام۔ کے محبوب لقب سے نوازاگیاہے۔ وہ حضرات جنہیں آپ کی خلافت وجانشینی کاشرف حاصل ہواوہ آپآنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایت کاکامل نمونہ تھے۔ نبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکے تربیت یافتہ خلفاء راشدین میںسے جس شخصیت کومسلمانوں کاچوتھاخلیفہ بننے کاشرف حاصل ہواانہیں امیرالمئومنین سیدناعلی بن ابی طالب کے نام نامی اسم گرامی سے یاد کیاجاتاہے۔
سیدنا علی بعثت بنوی سے ٧سال قبل پیداہوئے ۔قبول ِ اسلام کے وقت آپ کی عمرسات سال تھی ۔سیدناعلی کے والدابوطالب معاشی طورپرکمزورتھے اورناداری وغربت کی زندگی گزاررہے تھے تو رسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے سیدناعلی کواپنی زیرکفالت لے لیااورجب رسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے نبوت ورسالت کااعلان کیاتوسیدناعلی آپ کی زیرکفالت ہی پرورش پارہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے کھلم کھلادعوت دینے کاحکم فرمایاتوسیدناعلی نے رسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکاساتھ دینے کاکھلم کھلااعلان کیا۔مشرکین مکہ نے نعوذباللہ نبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکوقتل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تونبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے سیدناعلی کومکہ کے لوگوںکی امانتیںسپرد کیں تو امانتیں واپس کرنے کے بعد آپ بھی رسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں مدینہ حاضرہوگئے۔سیدناعلی تمام جہادی معرکوںمیں پیش پیش رہے اوراپنی جرأت وشجاعت کے جوہردکھلائے ۔غزوہ بدر،غزوہ احدمیں سیدناعلی نے بھی انتہائی شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے کئی مشرکوں کوواصل جہنم کیا۔غزوۂ احزاب(خندق)میں رسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے سیدناعلی کواپنے مبارک ہاتھوں سے تلوارعطافرمائی،سرپرعمامہ بندھوایااوردعابھی دی۔صلح حدیبیہ میں مذکرات کے بعد شرائط طے ہوگئیں تورسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے سیدناعلی کومعاہدہ قلمبندکرنے کاحکم دیا۔غزو ۂ خیبرمیں خیبرکے قلعوں کی فتوحات کاسلسلہ جاری تھاکہ نبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے سیدناعلی کوجھنڈاعطاکرتے ہوئے اسلامی لشکرکی قیادت سپردکی ۔غزوہ تبوک کے موقع پررسول اللہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے اہل خانہ ،مدینہ منورہ کی عورتوں اوربچوں کی نگرانی کی ذمہ داری سیدناعلیکوسونپی۔نبی کریم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے حج کے موقع پرسورةبرأت کی آیات کے اعلان کی ذمہ داری سیدناعلی کے سپردکی۔آپ کوحضرت خاتم الانبیاء آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے غسل اورتجہیزوتکفین کی سعادت حاصل ہوئی۔
سیدناصدیق اکبر،سیدناعمرالفاروق اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہم کے ادوارِخلافت میں ان حضرات کے مشیرخاص رہے۔٣٥ھ میں منصبِ خلافت پر فائزہوئے اور
دیگرخلفاء راشدین کی طرح اسلام اوراہل اسلام کے لیے شاندار خدمات انجام دیں۔رمضان المبارک ٤٠ھ میں آپ شہادت کے عظیم مرتبے پرفائز ہوئے۔
سیدناعلی کے فضائل ومناقب بے شمارہیں لیکن صد افسوس!ایک توآپ کازمانہ خلافت کئی ہنگاموںاورحادثوں کی نذرہوگیا۔دوسری بات یہ کہ دشمنانِ اسلام خارجیوں،سبائیوںاوررافضیوں نے آپ کا”نام لیوا”بن کرآپ کے بارے میں باطل اورکفریہ عقائد اپنالیے حتی کہ بعض تومعاذاللہ آپ کی الوہیت کے بھی قائل ہوگئے۔نیزآپ اورآپ کے خاندان خصوصاًسیدحسین کے بارے میں ایسی من گھڑت روایات اورایسے جھوٹے قصے اورافسانے گھڑلیے کہ جنہیں کوئی بھی صاحب ِعقل مسلمان اورسلیم الفطرت انسان قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔مذکورہ دووجوہ کی بناپرسیدناعلی کی شخصیت اورسیرت دھندلاکررہ گئی تھی لیکن اہلسنت محققین علماء کرام نے قرآن وسنت اورتاریخی حقائق کی روشنی میںآپ کی پاکیزہ شخصیت اورروشن سیرت کواہل اسلام کے سامنے پیش کردیا۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی روشن حیات اورمنور کردارسے واقفیت حاصل کرکے اس نور ہدایت کی روشنی میں صراط مستقیم کی طرف گامزن ہواجائے تاکہ السابقون الاولون کی اتباع بالاحسان کی سعادت حاصل ہواوران کے بارے میں رضی اللہ عنھم ورضوعنہ کااعلان کرنیوالے اللہ جل شانہ’ہم سے بھی راضی ہوجائیں۔

Related posts