ووٹ کی شرعی حیثیت

مولانامحمداحمدحافظ

ووٹ کیا ہے؟:

ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میںقانون سازی کرتے ہیں۔ووٹ کا طریقہ کبھی بھی ہماری اسلامی روایت اور تاریخ میں رائج نہیں رہا۔ووٹ یاخفیہ رائے شماری کا آغاز١٨٧٠ء میں ہوا جب لندن اسکول بورڈ کا انتخاب عمل میں آیا۔اس عمل میں ہر ووٹر کو ایک پرچی دی جاتی ہے جس میں زیر عمل انتخاب کے تمام امید واروں کے نام شامل ہوتے ہیں ،انتخاب کنندہ اپنی پسندکے امید وار کے نام کے سامنے نشان لگا کر پرچی مقفل بکس میں ڈال دیتا ہے(بحوالہ:وکی پیڈیا)
ووٹ کے بارے میںہمارے بعض علما کا کہنا ہے کہ یہ ایک رائے، شہادت اور مشورہ ہے…یہ درست رائے نہیں ہے، ووٹ نہ رائے ہے نہ شہادت اور نہ ہی مشورہ… اگر یہ سب مان بھی لیا جائے تو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ووٹ دینے والا اپنی طرف سے ایک نمایندہ بھیج رہا ہے جو کافرانہ جمہوری نظام میں شرکت کرے، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر غیر اسلامی قوانین بنائے،اسلام سے متصادم قوانین کی توثیق کرے،پارلیمنٹ کے قوانین سراسر ظلم وتعدی پر مبنی ہوتے ہیں،وہاں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن سے عامة الناس کا استحصال ہوتا ہے اورسرمایہ داروں،وڈیروں جاگیرداروں اورمزدوروں کا خون چوسنے والے صنعت کاروں ،چوری ڈکیتی کرپشن کے عادی مجرموں،قاتلوں،بدترین اخلاقی برائیوں میں ملوث معاشرے کے اوباش لوگوں کوتحفظ ملتا ہے ،جیسا کہ ہم پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کیا اسلام میں اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی شخص مذکورہ منکرات کے ارتکاب کے لیے رائے اور گواہی دے اور کیا ایسی گواہی اور ایسا مشورہ جائزامر کے ضمن میں آئے گا یاحرام کے زمرے میں؟… ظاہر ہے شریعت اسلامیہ میں ایسی کسی گواہی اور مشورے کی گنجائش نہیں… ایسی رائے، گواہی اور مشورہ سب باطل ہیں… اس کا ارتکاب کرنے والا عنداللہ مجرم ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر کہا جائے کہ اہل اور دیانت دار شخص کو ووٹ دیا جائے تو بھی وہ دیانت دار شخص جائے گا تواسی کافرانہ جمہوری سسٹم میں!… اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر بالفرض ہمارے ہاں ہندومت غالب آجائے اور مندر کو پارلیمنٹ کی حیثیت دے دی جائے اور اعلان کیا جائے کہ مندر ہی آیندہ تما م سیاسی ومعاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہوگا اور مسلمان بھی اس مند ر کے ممبر بننے لگیں، اپنی عبادات کے علاوہ پوجا پاٹ کے نظام کو قبول کرلیں اور پروہت بننے میں فخر محسوس کریں تو جس طرح اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں اسی طرح پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی بھی گنجائش نہیں۔ مندر میں بتوں کی پوجا کی جاتی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں انسان اپنی بندگی کرتاہے یا سرمائے کی بندگی، جیسے مندر ہندومت کے عملی اظہار کی جگہ ہے اسی طرح پارلیمنٹ مذہبِ سرمایہ داری کے اظہار کی جگہ ہے۔ تو جس طرح پنڈت پروہت بننے کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں اسی طرح پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی گنجائش کیوں کر نکالی جاسکتی ہے؟

ووٹ مشورہ نہیں ہے :

ووٹ ہماری نظر میں مشورہ کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ،ووٹ کو مشورہ تسلیم کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے، اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظم میں جس طرح انسان اپنی آزادی کا اظہار سرمائے کے ذریعے کرتا ہے اسی طرح وہ اپنی آزادی کا اظہار ووٹ کے ذریعے بھی کرتا ہے۔ ووٹ کے بارے میں وہ اپنے ”سرچشمۂ قوت”” منبعِ اقتدار واختیار” ہونے کا اعلان کرتاہے۔
٭…پھر اگر ووٹ کو بالفرض مشورہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا یہاں مشورہ سے متعلق جتنی بھی اسلامی تعلیمات ہیں وہ پائی جاتی ہے؟ ووٹنگ میں بلاقیدِجنس ومذہب ہر شخص حصہ لے سکتا ہے، کیا اسلامی نکتۂ نگاہ سے مشورہ ورائے ہر شخص سے لیا جاسکتا ہے؟ مثلاً کہیں اسلامی ریاست میں کسی جگہ قاضی مقرر کرنا ہوتوکیا اس کام کے لیے صرف علماء وصلحاء اور اتقیاء سے مشورہ لیا جائے گایا ان کے ساتھ بھنگی چرسی، زانی، شرابی، ڈاکو کو بھی مشورے میں شامل کیا جائے گا؟… یا مثلاً کہیں بیماریوں کی آفت آگئی ہے اور وہاں ماہر ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تو اس کے لیے ماہر ڈاکٹروں سے ہی مشورہ لیا جائے گا یا قصائیوں، نائیوں اور طبلہ سارنگی بجانے والوں کو بھی مشورے میں شامل کیاجائے گا؟ظاہر ہے کہ یہ نہایت بے وقوفی کی بات ہو گی،مشورہ صرف اہل لوگوں سے لیا جائے گا۔

ووٹ گواہی نہیں ہے:

٭…اگر ووٹ کو گواہی تسلیم کیا جائے تو کیا یہاں گواہی کی شرائط اور حدودوقیود موجود ہیں؟ مثلاً گواہ عادل ہو، بالغ ہو، شریف ہو، بایں معنی کہ پنج وقتہ نمازی ہو، حلال وحرام کو جانتا ہو، یہاں بیش تر اکثریت ایسی ہے، جو طہارت اور نماز کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں۔ فقہاء نے درج ذیل اشخاص کی گواہی ناقابل قبول قرار دی ہے:
(1) نماز روزے کا عمداً تارک ہو، (2) یتیم کا مال کھانے والا (3) زانی اور زانیہ (4) لواط کا مرتکب (5) جس پر حد قذف لگ چکی ہو (6) چور ڈاکو (6) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا (8) خائن اور خائنہ…
یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جس چیز کی شرعی حیثیت ہوتی ہے اس کے لیے شرعی ضوابط بھی ہوتے ہیں ،مثلاً:نکاح،حدود،عقود،گواہی…گواہی کے لیے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ مرد کی ایک گواہی اور دو عورتوں کی ایک گواہی شمار کی جاتی ہے۔ایک عورت کی گواہی ناقابلِ قبول ہے ۔ووٹ کو اگر گواہی شمار کیا جائے تو یہ غیر شرعی گواہی ہو گی مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر:
٭…جمہوری نظام میں مردوعورت کی گواہی برابر شمار کی جا تی ہے،جو شرعی اصول کے خلاف ہے۔
٭…جمہوریت مشرکانہ اور کافرانہ نظام ہے،اس نظام کا حصہ بننے والوں کو ووٹ دینا اعانت علی الاثم و الکفر ہے۔
٭…اسمبلی میں قرآنی اور شرعی قانون کو کسی ممبر اسمبلی کے سامنے دستخط کے لیے رکھناتاکہ اسے نافذ کیا جاسکے،یہ کفر ہے،اس لیے کہ اس میں اللہ کا قانون اپنے قانون ہونے میںایک بندے کا محتاج ہے۔
٭…ووٹ کو شرعی گواہی کہنا اوربطور دلیل قرآنی آیا ت واحادیث پیش کرناتحریف اور دھوکہ ہے،اور جن لوگوں نے کہا ہے کہ ووٹ نہ دینا گناہ ہے وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

ووٹ امانت نہیں:

٭…اگر کہا جائے کہ ووٹ ایک امانت ہے سوال ہوگا کہ یہ امانت بندوں کو کس نے تفویض کی؟ آیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوئی یا جمہوریت نے تفویض کی؟ یقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں کہا گیا کہ جب تمہیں امیر مقرر کرنا ہوتو سب لوگ مل کر ووٹ ڈالا کرو، نہ سنت سے اس عمل کی کوئی توثیق ملتی ہے نہ تعامل ِ امت سے۔ہاں! جمہوریت کی تفویض کردہ امانت ہوسکتی ہے مگر باطل امانت ہے، یہ ایسی ہی امانت ہے کہ جسے کوئی شخص شراب کی بوتل آپ کے پاس بطور امانت رکھنے آئے تو کیا آپ اس بوتل کو دیکھتے ہی توڑنے کے درپے ہوں گے یا حفاظت سے رکھنے کی کوشش کریں گے؟

ووٹ بیعت کامتبادل نہیں:

بعض لوگ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں اور ووٹ کو بیعت کا قائم مقام قرار دیتے ہیں ووٹ بھلا بیعت کے قائم مقام کیسے ہوسکتا ہے؟ بیعت سمع وطاعت کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہاں تسلیم کرنے کے سوا اور راستہ نہیں جبکہ ووٹ آزادی کا اظہار ہے یہاں آپ آزاد ہیں کہ چاہیں تو مسلم لیگ کو ووٹ دیں چاہیں تو پی پی پی کو چاہیں تو کسی مولانا کو ووٹ دے دیں۔

ووٹ کے حوالے سے بعض عملی مسائل:

ووٹ کے حوالے سے چند دیگر عملی مسائل بھی ہیں مثلاً:
ووٹروں کی اکثریت اپنے ضمیر کی آزادی کے مطابق ووٹ نہیں دے پاتی، وہ اگر کسی امیدوار کو غلط اور نااہل سمجھتا ہے تو وہ اپنی پارٹی کی پالیسی، قبیلے کے فیصلے یا برادری کے دبائو کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ اسی نااہل شخص کو ووٹ دے ۔مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرتی ہیں اس صورت میں ووٹر مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے پاسدار ہوتے ہیں۔ مثلاً جمعیت علماء اسلام نے ٢٠٠٨ء کے الیکشن میںمسلم لیگ ق کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ، ق لیگ بلاشبہ علماء خصوصاًلال مسجد کے معصوم طلبہ کی قاتل جماعت ہے مگر جہاں جمعیت کے ووٹر موجود تھے او رق لیگ کا امیدوار کھڑ اتھا تو جمعیت کے ووٹر ق لیگ کو ووٹ دینے کے پابند تھے۔توکیا اس صورت میں ووٹ کا وہ نام نہاد تقدس برقراررہ سکتا ہے جو طاغوتی جمہوری نظام سے متاثر لوگ بیان کرتے ہیں؟
٭… ووٹوں کی خرید وفروخت بھی ہوتی ہے، بھاری رقوم خرچ کرکے لوگوں سے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔
٭… ووٹوں کے حصول کے لیے بھاری اخراجات کرکے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے، اس مہم پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو اسراف وتبذیر کے زمرے میں آتے ہیں۔
٭ الیکشن کے دوران خفیہ اداروں کی مداخلت اب کوئی مخفی بات نہیں ہے، حکمران ٹولہ آیندہ اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانے کے لیے خفیہ اداروں کے ذریعے ایسا جال بچھاتا ہے کہ نتائج میں بس انیس بیس کا یہی فرق ہوتا ہے۔
٭… یہ بات بھی اہل نظر سے مخفی نہیں کہ بالادست قوتیں اپنے من پسند امیدواروں کو جتوانے کے لیے دھمکی، دھونس سے کام لینے کے علاوہ خفیہ طور پر بیلٹ بکس میں اضافی ووٹ ڈلوا دیتی ہیں، بہت سے فوت شدہ لوگوں کے شناختی کارڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔بلکہ زندہ لوگوں کے ووٹ بھی دھوکے سے ڈال دیے جاتے ہیں۔
٭…بعض مقامات پر ایک ہی حلقے میں جمعیت(ف)جمعیت(س)اور جماعت اسلامی کے امیدوار کھڑے ہیں،تینوں عالم فاضل ،دیانت اور شرافت کے پتلے ،اب فرمائیے ووٹ دینے والے کے لیے وجہِ ترجیح کیا ہوگی کہ وہ کس کو ووٹ دے؟
٭…اگر کہا جائے کہ مذہبی جماعتوں کے امید واروں کو ووٹ دیے جائیں تو پہلی بات یہ ہے وہ بھی اسی کافرانہ سسٹم کا حصہ بننے جاتے ہیں ،پھر یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح حقیقت ہے کہ پرویزڈکٹیٹر کادور ہو یا رافضی زرداری کااسمبلیوں میں جانے والے علما نے اپنے ووٹ کے ذریعے پرویزی گورنمنٹ اور بین الاقوامی ڈکیت رافضی زرداری کی گورنمنٹ کو تحفظ دیا۔
ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ووٹ کو شہادت، امانت اور مشورہ قرار دینا بہت بڑی خطا اور نہایت غلط روش ہے، جن علماء نے ووٹ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے لیے فتاویٰ جاری فرمائے ہیں غالباً انہوںنے اس پورے نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ نہیں فرمایا یا شاید وہ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس طرف نگاہ نہیں کرسکے۔

ووٹ استبدادی نظام کی توثیق وتایید کا ذریعہ ہے:

ہماری نظر میں ووٹ دینا مشرکانہ نظام ریاست وسیاست کے قیام واستحکام کا ذریعہ ہے، یہ شرک کے ارتکاب اور کفر کی تایید کے علاوہ ظلم واستبداد کی حکومت کی حمایت کرنا ہے۔ قرآن مجید میںارشاد ہے:
ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اﷲ(الآیہ)
قرآن مجید میں انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے گیاجو اپنے ایمان کو شرک وظلم سے آلودہ نہیں کرتے۔ چناںچہ ارشاد ہے:
اَلَّذِےْنَ اٰمنُوْا وَلَمْ ےَلْبِسُوْا اِےْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ (الانعام:٨٢)
”جولوگ ایمان لائے اور انہوںنے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن وچین ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔”
ہماری عامة الناس سے درخواست ہے وہ اس جمہوری تماشے کاحصہ ہرگز نہ بنیں،اپنے آپ کو اس سے بچائیں،الیکشن والے دن زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اگر معاشرے میں تبدیلی مقصود ہے تو اس کے لیے شرعی طریقہ اختیار کریں۔اور یہ یاد رکھیں کہ غیر شرعی طریقوں سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔فا فہموا وتدبروا

Related posts