کیا ووٹ کے ذریعے اسلا می نظا م کا نفا ذ ممکن ہے؟

 

مولانا محمد زاہد اقبال

ولانا            مذہبی جمہو ری سیا سی جما عتو ں نے ملک کے اندر اسلا می نظا م کے نفا ذ کے لئے گزشتہ سا ت دہا ئیو ں سے انتخا با ت اور ووٹ کا را ستہ اپنا یا ہوا ہے لیکن آج تک اسلا می نظا م قا ئم ہوا ہے اور نہ آئندہ اس طریقے سے قا ئم ہو نے کاکوئی امکا ن ہے ۔دراصل اسلا می نظا م کے لئے جمہو ری را ستہ اختیا ر کر نا ہی غلط ہے کیونکہ،

١۔         جمہو ری طریقے کے مطا بق انتخا ب کے ذریعے اسلا می نظا م کے نفا ذ کے لئے عوا م سے ووٹ ما نگنا قرآن و سنت کے خلا ف ہے کیو نکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ عوا م کے قا نون سازی کے حق تسلیم کیا جا رہا ہے اور انہیں یہ اختیا ر دیا جا رہا ہے کہ اسلا می نظام کو قبول کریں یا با طل نظا م جمہو ریت کو ۔

عوام کو اسلا م و غیر اسلا م میں سے ایک منتخب کرنے کا حق دینا یا اس حق کو تسلیم کرنا اور انہیں قا نو ن سا زی کا حق دینا یا اس حق کو تسلیم کر نا قرآن و سنت کے سرا سر خلا ف ہے ، کیونکہ اللہ تعا لیٰ کا عطا کر دہ نظا م حیا ت اور قوا نین اپنے نفا ذ میں عوا م کے ووٹو ں کے محتا ج نہیں ہیں بلکہ وہ تو برا ہ راست انسا نوں پر نا فذ ہونے کے لئے ہیں ، چنا نچہ تما م انبیاء کرا م علیھم السلا م نے اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ شریعت کو انسان پر برا ہ راست نا فذ کیا ہے اور نفا ذ سے پہلے اس کے حق میں عوا م سے ووٹ نہیں لیے ۔

٢۔        جمہو ریت کا یہ بنیا دی اصول ہے کہ پا رلیمنٹ میں اکژیت رکھنے والی جماعت کو قا نون سا زی کا حق ہے وہ جو چا ہے قا نو ن بنا سکتے ہیں اور بنا تے رہتے ہیں ۔جمہو ری سیا ست  میں شرکت کرنے وا لی مذہبی جما عتوں کو یہ اصول تسلیم کر نا پڑتا ہے کیونکہ انتخا با ت میں اکثریت حا صل کرنے والی جما عت کو عوام کی طرف سے دیے جا نے وا لے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا جمہو ریت کا بنیادی اصول ہے لہذا جب تک مذہبی جمہو ری جما عتیں اقلیت میں ہیںجیسا کہ اب تک ہو رہا ہے تو انہیں اکثریت رکھنے وا لی جما عت کے قا نو ن سا زی کے حق کے تسلیم کرنا پڑتاہے حا لا نکہ ان کا یہ حق تسلیم کرنا سرا سر اسلا م کے خلا ف ہے کیونکہ اسلا م میںقا نو ن سا زی کا حق صرف اور صرف اللہ جل شانہ کو حا صل ہے اور اللہ تعا لیٰ کے مقا بلے میں عوا م کے منتخب کئے ہوئے نما ئندوں کو اکثریت کی بنیا د پر قا نون سا زی کا حق دینا یا اسے تسلیم کرنا شرک ہے ۔

٣۔       جمہو ری طریقے پرہو نے وا لے انتخا با ت اور الیکشن کا اسلا م میں کوئی تصور نہیں ہے، کیونکہ اسلا می نظا م اللہ تعا لی ٰ کا عطا کردہ نظا م اور قوا نین انسا نوں پر برا ہ را ست نا فذ کیے جا تے ہیں جبکہ جمہو ریت میںانتخا با ت کے ذریعے عوا م کی خوا ہش اور مرضی معلو م کی جا تی ہے اور ان کے منتخب کیے ہو ئے نما ئندے ان کی نما ئندگی کر تے ہو ئے شریعت کے بجا ئے خوا ہشا ت کیمطابققا نو ن سا زی کرتے ہیں اللہ تعا لیٰ رسول اللہ ۖ سے فرما تے ہے :فا حکم بینھم بما انز ل اللہ ولا تتبع اھوا ئھم:

اسلا م کی تیرہ صدیو ںپر مشتمل سیا سی تا ریخ میں آئین وقا نو ن سا زی کے لئے کبھی بھی الیکشن و انتخا با ت نہیں کروا ئے گئے بلکہ حکمرا نو ں کے تقرر کے لئے بھی کبھی انتخا با ت نہیں کر وائے گئے ۔

٤۔       الیکشن ، انتخا با ت اور ووٹ جمہو ری نظا م کی بنیا د ہے اور انتخا با ت میں شر کت کر نا اور ووٹ لینا یا دینا دراصل جمہو ری نظا م کے صحیح ہو نے کی تا بید و تصدیق کر نا اور اسی مبنی بر حق قرا ر دینا ہے حا لا نکہ جمہو ریت کا فرا نہ ومشرکا نہ نظا م ہے ، لہذا ووٹ دینا یا لینا کفریہ و شرکیہ نظا م کو صحیح اور جا ئز قرار دینا ہے جو کہ اسلا م و ایما ن کے منا فی ہے ۔

٥۔       تقریبا سا ت دہا ئیا ں ہو رہی ہیں انتخابات اور ووٹ کے ذریعے نہ اسلا می نظا م قا ئم ہوا ہے اور نہ ملک کو ترقی و خو شحالی حا صل ہو ئی ہے بلکہ ووٹ کے ذریعے اقتدا ر میں آنے وا لی بے دین جمہو ری پا رٹیو ں نے ایک طرف الحا د ، بے دینی ، فحا شی و عریا نی ،اور بے را ہ روی کو فرو غ کردیا ہے تو دوسری طرف کرپشن بد عنوا نی ، لو ٹ ما ر ، فرا ڈ، قا نو ن شکنی کا رجحا ن عا م کیا ہے جس کے نتیجے میں ریا ست کے تما م محکمے اور زندگی کے تقریبا تما م شعبے تبا ہ ہو چکے ہیں۔

٦۔        مذہبی سیا سی جما عتیں گزشتہ تقریبا ستر سا ل سے جمہو ری و انتخا بی سیا ست کا حصہ ہے ۔ اسلا م کے نام پر ووٹ حا صل کئے جا تے ہیں لیکن پا کستا ن کی گزشتہ تا ریخ اس با ت پر گوا ہ ہے کہ اس طریقے سے آج تک اسلا می نظا م نا فذ نہیں ہوا ہے ۔ اکا بر علما ئے کرا م نے انتخا بی سیا ست میں محض اس بنیا د پر حصہ لیا تھا کہ چو نکہ ملک میں یہی نظا م را ئج کر دیا گیا تھا تو انہوںنے اس چلتے ہو ئے را ستے کو اسلا می نظا م نفا ذ کے ذریعے کے طور پر اختیا ر کر لیا کہ شا ید اس طریقے سے اسمبلیوں میں پہنچ کر اسلا می نظا م کا نفا ذ ممکن بنایا جا ئے یاد رہے کہ حضرات اکا بر جمہو ریت کو با طل اور کفریہ نظا م سمجھتے تھے اور انتخا با ت کو اسلا می نظا م کے نفا ذ محض ایک ذریعہ سمجھتے تھے لیکن گزشتہ تا ریخ نے ثا بت کر دیا ہے کہ انتخا با ت اور ووٹ کے ذریعے نہ آج تک اسلا می نظا م نا فذ ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکا ن ہے ۔

(تفصیل کے لئے پڑھیئے، عصر حا ضر میں غلبہ دین کا نبوی طریقہ کا ر)

٧۔       با قی رہا اسمبلیو ں میں اسلا م کا دفا ع اور خلا ف اسلام قا نو ن سازی کی روک تھام تو مذہبی سیا سی جما عتیں اس حوا لے سے بھی نا کا م ہو چکی ہے چنا نچہ تحفظ حقوق نسوا ں بل کا مذ ہبی سیاسی جما عتوں کی مخا لفت کے با وجود اسمبلیوں سے پاس ہو کر قا نو ن بن جا نا اور حسبہبل کا منظو ر نہ ہو نااس کا وا ضح ثبو ت ہے، یا د رہے کہ اسمبلی میں اسلا م کے حق میں اور خلا ف اسلا م قا نو ن کے خلا ف مدلل اور دھوا ں دھا رتقریر کر نے سے کچھ حا صل نہیں ہو تا کیونکہ وہاں تو ہر قا نون سے متعلق با لآخر ووٹ ہو تے ہیں اور اکثریت رکھنے وا لی جما عت تقریر یں نہ کر نے کے با وجود وہ قانون منظو ر کر وا لیتی ہے۔

مذکورہ بالا امورکے پیش نظریہ فرض ہے کہ اسلا می نظا م خلافت کے قیا م کے لئے انتخا با ت اور ووٹ کی سیا ست کو چھو ڑ کر نبوی انقلا بی طریقہ کا ر اختیا ر کیا جا ئے کیونکہ نبوی انقلابی طریقہ کا ر اپنا ئے بغیر اسلا می نظا م خلا فت کبھی بھی قا ئم نہیں ہو سکتا ۔

اللہ تبا رک و تعا لی کا عطا کردہ، نبی کریم ۖکا لایا ہوا، خلفا ئے را شدین رضی اللہ عنہ اجمعین کا نا فذ کیا ہوا اور تیرہ صدیو ں تک عا لم اسلام میں عملی طور پر را ئج رہنے وا لا نظا م ”خلافت” ہے جبکہ جمہو ریت مغرب کا پیش کردہ با طل، کفریہ اور شرکیہ نظا م ہے جس کی وجہ آج عا لم اسلام سمیت پو ری انسا نیت کی دنیا اور آخرت تبا بربا د ہو رہی ہے ۔

یا د رکھیں !قرآن و سنت اوراجما ع سے یہ بات ثا بت ہے اور تما م فقہا کرا م  کا اس با ت اتفا ق ہے کہ نظا م خلا فت کا قیا م مسلما نوں پر فرض ہے ۔مسلما ن نوے (٩٠)سا ل سے زائدعرصے سے نظام خلافت سے محروم ہیں اور فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق تقریباً نوے سال سے مسلمانوں پر نظام خلافت کا قیام فرض عین ہو چکا ہے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ،اسلامی نظام خلافت اور ہماری ذمہ داری)لیکن افسوس !مسلمان خواص اور عوام کی غالب اکثریت اس فریضے کی ادائیگی سے نہ صرف عملی طور پر دور ہے بلکہ لاعلم ہے اس لئے ہر مسلمان بالخصوص علماء کرام پر فرض ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے فریضے کی ادائیگی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

یاد رکھیں !آج امت مسلمہ مجموعی طور پر جن حالات سے دوچار ہے اورجن مشکلات ومسائل میں گھری ہوئی ہے اس کا حل یہی ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل کا ضامن نظام خلافت بحال کیا جائے ۔جب خلافت قائم ہوجائے گی تو جمہوریت کی جگہ اسلام کا سیاسی نظام نافذ ہو گا ،عدالتوں میں برطانوی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کے مطابق عدل وانصاف پر مبنی فیصلے ہون گے ،لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے بجائے اسلامی نظام تعلیم وتربیت رائج ہوگا ،مغربی مادر پدر آزاداور غلیظ اور گندی تہذیب کی بجائے اسلام کی پاکیزہ تہذیب اورثقافت اور اخلاق و روایات کو فروغ دیا جائے گا،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ منکرات اور برائیوں کو ختم کر کے اعمال صالحہ اور نیکیوں کو عام کیا جائے گا ،انکار ختم نبوت ،انکار ناموس صحابہ و اہل بیت  انکار حدیث ،انکار جہاداوران جیسے نت نئے اٹھنے والوں فتنوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا ، لہٰذا ناموس رسالت،ناموس صحابہ ،تحفظ سنت وفقہ اور ان جیسی دیگر تحریکوں کو چلانے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی ،کیونکہ یہ تمام کام اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ خود ہی انہیں نمٹائے گی ،جیسا کہ تیرہ سو سال کی اسلامی نظام کی تاریخ میں ایسا ہوتارہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ احیا ء خلا فت کی تحریک ایک جا مع تحریک ہے جس کے نتیجے میں پو رادین اسلام اپنی اصلی و عملی شکل میں زندہ ہو تا ہے اور ہر با طل عقیدے ، نظا م اور فتنے کا خا تمہ ہو تا ہے :جا ء الحق وزھق البا طل

اس لئے ہر مسلما ن پر فرض ہے کہ وہ پو رے دین کو زندہ کر نے کے لئے خلا فت کے قیا م کی جدوجہد میں باقاعدہ شامل ہو اورا س سے پیچھے ہرگز نہ ہٹے کیونکہ غفلت کی نیند سوتے ہوئے اوراحیائے خلافت کے فریضہ سے لاپرواہی اختیار کرتے ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے اس لئے اب اٹھیئے اور کھڑے ہوکر اللہ کے دین کے غلبے کے لئے جان ومال کی قربانی دیجیئے ۔تحریک نفاذ اسلام احیاء خلافت کی دعوت کو لے کر چل رہی ہے اور وقت کے جید علماء کرام ،مفتیان عظام ،محدثین اوراہل اللہ کی قیادت میں آگے بڑھ رہی ہے ،لہٰذا آئیے اوراحیاء خلافت کے فریضے کو نبھانے کے لئے اس جدوجہد میں شامل ہوکر اوراپنی جان ومال اوروقت قربان کر کے اس انقلابی تحریک کو پروان چڑھائیں۔ اللہ رب العزت ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین۔

Related posts