یہ نظام گرنے والاہے

اوریا مقبول جان

 

پرائمری اسکول میں ہمارے ایک استادبلا کے بذلہ سنج تھے۔مشکل سے مشکل بات کو یوں چٹکلوں اور لطیفوں میں سمجھاتے کہ آج تقریباً چالیس سال گزرنے کے باوجودبات تروتازہ معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ قرآن پاک میں آئے ہوئے ان تین لفظوں ”صم،بکم،عمی”یعنی آندھے ،گونگے اور بہرے کا مفہوم بتاتے ہوئے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایاجو اندھا،گونگا اور بہرہ تھا۔اس شخص کو جمہوریت کا بہت شوق تھا۔وہ جلسے جلوسوں میں جانے اور تالیاں پیٹنے کا دیوانہ تھا۔یار دوست اسے اپنے ساتھ جلسے میں لے جاتے اور اس کا شوق پورا ہوتا رہتا،لیکن یہ یار دوست عموماًایک شرارت ضرور کرتے۔جب مقرر کے کسی جملے پر تالیاں بجنے لگتیںتو وہ اسے چٹکی کاٹتے اور وہ شخص پورے زور سے تالیاں پیٹنے لگتا۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاکہ جب تالیاں ختم ہو چکی ہوتیںاور مقرر دوبارہ اپنے جوش خطابت میںتقریر کے کسی بہترین حصے پر پہنچتاجسے لوگ پورے انہماک سے سن رہے ہوتے تو کوئی دوست اس کی چٹکی کاٹ دیتااور وہ دیر تک تالیاں پیٹتارہتا۔یہاں تک کہ دوست اسے مخصوص تھپکی سے چپ ہونے کا اشارہ نہ کرتے۔کچھ دنوں تک تو لوگوں نے یہ تماشہ دیکھا۔کتنے ہی عظیم شعلہ بیان مقرر تھے جو اس کی وجہ سے تقریر کے دوران بدمزا ہوئے۔آکر کا جلسوں کے منتظمین اسے دور سے پہچان لیتے اور جلسے میں گھسنے نہ دیتے۔

میرے ملک میں جمہوری نظام کی بالادستی اور سودی معاشی نظام کے بل بوتے پر استوار کی گئی اس عمارت کے حق میں اس وقت تالیاں بجائی جاتی رہی ہیں کہ جس وقت دنیا بھر میںاس سارے نظام کی میت چوراہے پر رکھی ہوئی ہے۔بس اعلان ہونا باقی ہے کہ موت واقع ہو گئی ہے۔جمہوریت کا جو دلفریب اورجاذب نظر نظام سودی سرمایہ داروں کی کوکھ سے پیدا ہواجس نے کاغذکے نوٹوں اور مصنوعی دولت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو مضبوط کیاجس کا سارا مقصد ان ایک فیصد افراد کے مفادات کا تحفظ دینا تھا۔جنکی دولت کے کرشمے سے وہ اسمبلیوں،سینٹ اور دیگر اداروں کے ممبر بنے تھے۔جس کے مکروہ گھن چکر نے انہیں اقتدار کی کرسی عطا کی تھی۔

کاغذ کے معمولی ٹکڑوں پر بیش قیمت سیاہی اور اعلیٰ طباعتی نظام کے ذریعے سو ہزار، پانچ ہزار اور دس ہزار کے لفظ چھاپ کر پوری دنیاکے وسائل پر جس طرح اس صدی میں قبضہ کیا گیا،اس کی مثال گذشتہ صدیوں میں نہیں ملتی۔افریقہ اور ایشیاسے قیمتی فصلیں اٹھا لی گئیں۔عربوں،افریقہ اور جنوبی امریکہ کے رہنے والوں سے تیل،معدنیات،قیمتی دھاتیں اور سونا چاندی تک چھین کر ان کے ہاتھ میں یہ کاغذکے ٹکڑے پکڑادیے گئے۔جن پر یہ بیوقوف لوگ خوش ہوتے رہے کہ وہ کس قدر دولت مند ہیں۔پھر یہ ساری کی ساری دولت اپنی مصنوعات بیچ کر واپس چھین لی گئیں۔کہیں اسلحہ بیچا تو کہیں سامان آرائش،کہیں ملبوسات اور کہیں پیزااور برگر۔جب چاہا ان کاغذ کے ٹکڑوں کو مہنگا کردیا۔ جب چاہا ان کی قیمتیں گرا کر ہیجان پیدا کردیا۔عام آدمی کے خون پسینے سے کھلواڑ کے بعد جو مصنوعی دولت بنائی گئی اس کے تحفظ کے لئے سیاسی پارٹیوں میں سرمایہ کاری کی گی۔اربوں ڈالر،یورو اور پونڈ پارٹی کی تنظیم اور انتخابی مہمات کے لئے دیے گئے۔

پوری دنیا کے میڈیا کو نہ صرف اشتہارات سے غلام بنایا گیا،بلکہ ہر بڑے کارپوریٹ ہائوس نے ایک میڈیا ہائوس بھی بنا لیا۔اور اس میں اپنی دولت کا کچھ حصہ جھونک دیا۔ یہ میڈیا  اس پورے نظام کو دلکش بنا کر پیش کرتا اور اسی کے ذریعے اربوں ڈالر کی انتخابی مہمیںایسے لوگوں کو منتخب کرتیں جو اقتدار کے ایوانوں میں پتلیوں کی طرح رقص کرتے۔ان سب نے مل کرایسی پالیسیاں بنائیں،ایسے قانون وضح کیے جس سے دنیا میں غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا۔اور ایک فیصد امیروں کی دولت کے ڈھیر میںاضافہ ہوتا چلا گیا۔

اس سودی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کا نتیجہ ہے کہ اب ان ایک فیصد سرمایہ داروں کی پورے نظام پر اجارہ داری ہے۔لیکن اب پوری دنیا کاغذ کے ان نوٹوں پر کھڑی ہزاروں منزلہ عمارت کے گرنے کا تجربہ کرنے والی ہے۔حالت یہ ہے کہ امریکہ کے سنیٹر فار اکنامک پالیسی اینڈریسرچ نے گذشتہ دہائی کو گمشدہ یعنی ”lost decade”کہا ہے۔  ایک مشہور امریکی معیشت دان ایڈورڈ ولف نے جو امریکی معاشرے کا تجزیہ پیش کیااس کے مطابق ایک فیصد امیر امریکیوں کے پاس امریکا کی 41.1فیصد ،باقی19فیصد کے پاس 53.5 فیصد دولت ہے۔اور80فیصد غریب امریکیوں کے پاس 4.7 فیصد دولت بچ جاتی ہے۔کانگریس میں بیٹھے ان امیروں کے گماشتے ایسا کوئی قانون پاس ہی نہیں کر پاتے کہ یہ تقسیم ختم ہو۔کیوں کہ ان کی جمہوریت ان ایک فیصد کے سرمائے کی غلام ہے۔یہی حال دنیا میں پھیلے ہوئے سودی معیشت پر مبنی ہر ملک کے جمہوری نظام کا ہے۔دس فیصد لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔دس فیصد لوگوں کے پاس سوئزرلینڈ میں یہ دولت 71.3فیصد،ڈنمارک میں65فیصد،فرانس میں61فیصد،سویڈن میں58.6فیصد ، برطانیہ میں56فیصد،کینیڈا میں53فیصد،اور ناروے میں 50.5 فیصد ہے۔ان تمام ملکوں کی اسمبلیوں کا حال بھی وہی ہے جو ہمارا ہے۔ جیسے ہم زرعی آمدن پر ٹیکس نہیںلگایا کرتے کہ اس سے موتدر طبقے کامفاد کمزور ہوتا ہے۔اسی طرح وہاں بھی جمہوری طور پر منتخب حکمران ایسی کٹھ پتلیاں ہیں جو اس دولت کے ارتکاز کو ختم نہیں کر سکیں۔وہاں الیکشن منصفانہ ہوتے ہیں۔غیر جانبدار الیکشن کمیشن موجود ہوتا ہے۔ایماندارانہ اور سچی قیادت منتخب بھی ہوتی ہے۔وہاں وہ سب کچھ موجود ہے۔جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسی جمہوریت ہمارے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دے گی۔ لیکن یہ پورے کا پورا جمہوری نظام ایک ایسا خوش نما فریب ہے۔ جس میں دکھ،درد،مصیبت اور پریشانی تو موجود رہتی ہے۔لیکن ماحول کا چکا چوند اور رقص و سرور کی دھما چوکڑی انسانوں کو مصنوعی مسکراہٹ پر مجبور کرتی رہتی ہے۔

اب یہ سارا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔لوگ سڑکوں پر اب ایک فیصد لوگوں کی جمہوری آمریت کے خلاف دنیا کے ہر شہر میں احتجاج کرتے پھرتے ہیں۔لیکن ان لوگوںنے اس سرمایہ دارانہسودی جمہوری نظام کی روح کو سمجھ لیا ہے۔اسی لئے وہ کاغذ کے نوٹوںاور بینک کے خون چوسنے والے طریقہ کا رکے خلاف اٹھے ہیں۔گزشتہ مہینے یونان کے تین شہروں میںلوگوں نے کرنسی نوٹ لینا بند کردیے اور کہا گھر میں سے سونا،چاندی یا اور کوئی قابل استعمال چیز لے آئو۔ہم تمہیں سامان دے دیں گے۔لیکن کرنسی نوٹ وصول نہیں کریں گے۔سونے اور چاندی کو خریدنے کا ایک جنون لوگوں پر سوار ہے۔سوئزرلینڈ کی ریفائری نے اس سال چاکلیٹ کی طرح کی سونے کی اینٹیں فروخت کے لئے رکھیں جسے وہcombi.barکہتے ہیں۔ان کی ساخت ایسی ہے کہ ایک گرام کے ٹکڑوں میںچاکلیٹ کی طرح توڑا جا سکتا ہے۔ان کا سائز ایک کریڈٹ کارڈکی طرح ہے اور یہ پچاس ٹکڑوں پر مشتمل پچاس گرام کی ہیں۔

پوری دنیا میں2011ء میںسونے کی اینٹیں تقریباً77ارب ڈالر میں فروخت ہوئیں۔جبکہ 2001ء میں صرف 3.5ارب ڈالر کی فروخت ہوئیں تھیں۔ورلڈگولڈ کونسل اس رجحان میں ابھی حیران تھی کہ سوئزرلینڈ کی اس ریفائنری نے چاکلیٹ کے طرز کے سونے کی اینٹیں نکال کر مارکیٹ میں چلا دیں۔ جو صرف ایک ماہ میں ایک ارب ڈالر مالیت کی فروخت ہوئیں۔  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک گرام کے حصوں میں علیحدہ کی جاسکتی ہیں۔اور یہ کاغذ کے نوٹوں کی متبادل کرنسی کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں۔لیکن پھر بھی ہمارے بددیانت معیشت دان لکھتے ہیںکہ گزشتہ سالوں میں سونے کی قیمت میں پانچ سو گنااضافہ ہوا ہے۔ یہ نہیں لکھتے کہ سونے کے مقابلہ میںان کے کاغذ کے نوٹوں کی قیمت گری ہے۔اور وہ پانچ سو گنا ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے ہیں۔ کاغذ کے نوٹوں کو ان جمہوری حکمرانوں نے کثیر تعداد میں چھاپ کر لوگوں کے وسائل کو لوٹا ہے۔سیدالانبیاۖ نے فرمایا تھا:”بنی نوع و انسان پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ ان کے لئے درہم(چاندی)اور دینار (سونے)کے سکوں کے سوا تجارت کرنے کا کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔ ” دنیا کو یقین ہے کہ یہ نظام گرنے والا ہے۔اس دو سو سالہ جمہوری مقرر کی تقریر ختم ہو چکی،مگر ہم اندھے،بہرے اور گونگے ہیںجو ابھی تک تالیاں بجائے چلے جا رہے ہیں۔ہمیں تو کوئی اشارہ کرکے سمجھاتا تک نہیںکہ دیکھو جلسہ ختم ہوگیا۔مقرر بھاگ گیا اور تم تالیاں پیٹ رہے ہو۔(بشکریہ ضرب مومن کراچی)

Related posts